Koh e Sulaiman Explorer

Koh e Sulaiman Explorer Let's promote tourism in Koh e Sulaiman.

The history of  began with the discovery of two critical principles: The first is camera obscura image projection, the s...
25/01/2025

The history of
began with the discovery of two critical principles: The first is camera obscura image projection, the second is the discovery that some substances are visibly altered by exposure to light[2]. There are no artifacts or descriptions that indicate any attempt to capture images with light sensitive materials prior to the 18th century.
View from the Window at Le Gras 1826 or 1827, believed to be the earliest surviving camera photograph.[1] Original (left) and colorized reoriented enhancement (right).
Around 1717, Johann Heinrich Schulze used a light-sensitive slurry to capture images of cut-out letters on a bottle. However, he did not pursue making these results permanent. Around 1800, Thomas Wedgwood made the first reliably documented, although unsuccessful attempt at capturing camera images in permanent form. His experiments did produce detailed photograms, but Wedgwood and his associate Humphry Davy found no way to fix these images.
In 1826, Nicéphore Niépce first managed to fix an image that was captured with a camera, but at least eight hours or even several days of exposure in the camera were required and the earliest results were very crude. Niépce's associate Louis Daguerre went on to develop the daguerreotype process, the first publicly announced and commercially viable photographic process. The daguerreotype required only minutes of exposure in the camera, and produced clear, finely detailed results. On August 2, 1839 Daguerre demonstrated the details of the process to the Chamber of Peers in Paris. On August 19 the technical details were made public in a meeting of the Academy of Sciences and the Academy of Fine Arts in the Palace of Institute. (For granting the rights of the inventions to the public, Daguerre and Niépce were awarded generous annuities for life.)[3][4][5] When the metal based daguerreotype process was demonstrated formally to the public, the competitor approach of paper-based calotype negative and salt print proce

20/12/2024
Photographer Muneer Marri 📸❤️📸
14/11/2024

Photographer Muneer Marri 📸❤️📸

یہ آذر بائیجان نہیں نہ ہی کوئی دور پار کا کوئی سیاحتی مقام ہے۔ یہ خوبصورت جگہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں واقع ہے ا...
13/11/2024

یہ آذر بائیجان نہیں نہ ہی کوئی دور پار کا کوئی سیاحتی مقام ہے۔ یہ خوبصورت جگہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں واقع ہے اور آپ ہری پور سٹی سے صرف اور صرف آدھے گھنٹے میں یہاں با آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ تربیلا کا جو نظارہ آپ کو یہاں سے ملتا ہے وہ شاید ہی کہیں اور سے ملتا ہوں۔

پانی کے ساتھ ہی ایک گھنا جنگل ہے جو یہاں کی خوبصورتی کو مزید دلکش بنا دیتا ہے اس کے ساتھ ہی یہاں آپ کو سینکڑوں قسم کے پرندے آس پاس اڑتے ہوئے اور شور کرتے ہوئے سنائی دینگے۔ پانی کے بیچ میں ایک چھوٹے اور خوبصورت جزیرے کا نظارہ بھی آپ کو مسحور کردے گا۔

ہری پور مین بازار سے آپ نے پنیاں چوک پہ آنا ہوگا وہاں سے غازی والی سڑک پر تقریباً چار کلو میٹر چل کر آگے ریاض مسجد آئے گی۔ اس مسجد کے بالکل سامنے ایک سڑک نکہ گاؤں کو جاتی ہے۔ اسی سڑک پر تقریباً 15 منٹ کے بعد آپ کو پانی بالکل سامنے نظر آئے گا۔ وہاں سے آپ کسی سے بھی راہنمائی لے سکتے ہیں اور آپ ہری پور کی سب سے خوبصورت مقام پر پہنچ جائیں گے۔

یہ تصویر ایک منفرد پہاڑی گھر کی ہے، جو صحرائی علاقوں میں گرمی اور سردی سے بچاؤ کے لیے خاص طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس طر...
13/11/2024

یہ تصویر ایک منفرد پہاڑی گھر کی ہے، جو صحرائی علاقوں میں گرمی اور سردی سے بچاؤ کے لیے خاص طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس طرز کے گھروں کو عموماً زمین کے اندر یا پہاڑی چٹانوں میں کھودا جاتا ہے تاکہ سخت موسمی حالات سے محفوظ رہا جا سکے۔

ایسے گھروں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ قدرتی طور پر گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ایئر کنڈیشننگ یا ہیٹنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس قسم کے گھر شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے کچھ علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، خاص طور پر تونس کے علاقے مطماطہ (Matmata) میں، جہاں بربر قبائل نے اسی طرز کے زیرِ زمین گھروں کو اپنی رہائش کے لیے اپنایا۔

یہ گھر نہ صرف موسمی اثرات سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ ہیں بلکہ ان کی تعمیر میں روایتی اور قدرتی مواد کا استعمال کیا جاتا ہے جو ماحول دوست بھی ہوتا ہے۔
:
:
:
:
Ten Unknown Facts About

1. Founding and History: BMW, Bayerische Motoren Werke AG, was founded in 1916 in Munich, Germany, initially producing aircraft engines. The company transitioned to motorcycle production in the 1920s and eventually to automobiles in the 1930s.

2. Iconic Logo: The BMW logo, often referred to as the "roundel," consists of a black ring intersecting with four quadrants of blue and white. It represents the company's origins in aviation, with the blue and white symbolizing a spinning propeller against a clear blue sky.

3. Innovation in Technology: BMW is renowned for its innovations in automotive technology. It introduced the world's first electric car, the BMW i3, in 2013, and has been a leader in developing advanced driving assistance systems (ADAS) and hybrid powertrains.

4. Performance and Motorsport Heritage: BMW has a strong heritage in motorsport, particularly in touring car and Formula 1 racing. The brand's M division produces high-performance variants of their regular models, known for their precision engineering and exhilarating driving dynamics.

5. Global Presence: BMW is a global automotive Company

6. Luxury and Design: BMW is synonymous with luxury and distinctive design, crafting vehicles tha

مئے وطن ۔ پھلیں وطن کوہ سلیمان ♥️روایتی بلوچی ڈش ♥️
09/11/2024

مئے وطن ۔ پھلیں وطن کوہ سلیمان ♥️
روایتی بلوچی ڈش ♥️

عطا آباد جھیل کیسے بنی؟عطا آباد جھیل وادئ ہنزہ، صوبہ گلگت بلتستان، پاکستان میں واقع ہے۔ یہ جھیل پہاڑ کے ایک حصے کے سرکنے...
09/11/2024

عطا آباد جھیل کیسے بنی؟
عطا آباد جھیل وادئ ہنزہ، صوبہ گلگت بلتستان، پاکستان میں واقع ہے۔ یہ جھیل پہاڑ کے ایک حصے کے سرکنے یعنی لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں 2010ء میں وجود میں آئی۔ یہ جھیل عطا آباد نامی گاؤں کے نزدیک ہے جو کریم آباد سے 22 کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے۔

یہ واقعہ 4 جنوری 2010ء میں پیش آیا جب زمین سرکنے سے کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے اور شاہراہ قراقرم کا کچھ حصہ اس میں دب گیا اور دریائے ہنزہ کا بہاؤ 5 ماہ کے لیے رک گیا۔ جھیل کے بننے اور اس کی سطح بلند ہونے سے کم از کم 6000 افراد بے گھر ہوئے جبکہ 25000 مزید افراد متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ شاہرائے قراقرم کا 19 کلومیٹر طویل حصہ بھی اس جھیل میں ڈوب گیا۔ جون 2010ء کے پہلے ہفتے میں اس جھیل کی لمبائی 21 کلومیٹر جبکہ گہرائی 100 میٹر سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اس وقت پانی زمین کے سرکنے سے بننے والے عارضی بند کے اوپر سے ہو کر بہنے لگا۔ تاہم اس وقت تک ششکٹ کا نچلا حصہ اور گلمت کے کچھ حصے زیر آب آ چکے تھے۔ گوجال کا سب ڈویژن سیلاب سے سب سے زیادہ متائثر ہوا جہاں 170 سے زیادہ گھر اور 120 سے زیادہ دوکانیں سیلاب کا شکار ہوئیں۔ شاہرائے قراقرم کے بند ہونے سے خوراک اور دیگر ضروری ساز و سامان کی قلت پیدا ہو گئی۔ 4 جون کو جھیل سے نکلنے والے پانی کی مقدار 3700 معکب فٹ فی سیکنڈ ہو چکی تھی.

یہ مریخ پر کوئی بستی نہیں بلکہ اردن میں واقع وادی رم کے ایک ہوٹل کی تصویر ہے۔یہ وادی اردن کے سب سے اہم مقامات میں سے ایک...
08/11/2024

یہ مریخ پر کوئی بستی نہیں بلکہ اردن میں واقع وادی رم کے ایک ہوٹل کی تصویر ہے۔
یہ وادی اردن کے سب سے اہم مقامات میں سے ایک ہے جو ہر سال ہزاروں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے کیونکہ اس کی زمین کی ساخت مریخ کی سطح سے ملتی جلتی ہے۔ یہاں تک کہ مریخ پر مبنی زیادہ تر فلمیں بھی یہیں فلمائی گئی ہیں۔ یہ اردن میں ستاروں اور شہاب ثاقب کی بارش کو دیکھنے کے لیے بہترین جگہ ہے

‏نَفرَت اِنسان کا بنایا ھُوا ذاتی مَسٔلہ ھے, وَرنہ قُدرت تو مُحَبت کا دَرّس دیتِی ہے  - ❤️🔥🥀
06/11/2024

‏نَفرَت اِنسان کا بنایا ھُوا ذاتی مَسٔلہ ھے, وَرنہ قُدرت تو مُحَبت کا دَرّس دیتِی ہے - ❤️🔥🥀

جلال آباد کا کابلی دروازہنیچے دی گئی تصویر سال 1879ع میں ایک انگریز شخص جان بروک نے کھینچی تھی جس میں افغانستان کے شہر ج...
06/11/2024

جلال آباد کا کابلی دروازہ

نیچے دی گئی تصویر سال 1879ع میں ایک انگریز شخص جان بروک نے کھینچی تھی جس میں افغانستان کے شہر جلال آباد کے گرد حفاظت کے لیے بنی ہوئی مٹی کی ایک بڑی دیوار میں کابل والی سڑک کی طرف کھلنے والا لکڑی کا دروازا دکھایا گیا ہے جس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جلال آباد کا شہر مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے وقت میں آباد ہوا تھا جس کی وجہ سے اس شہر کا نام جلال آباد پڑ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دریائے کابل کے کنارے پر آباد یہ جلال آباد کا شہر اس وقت افغانستان کے صوبے ننگرھار کا صوبائی دارالحکومت ہے جس کی آبادی تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد پر مشتمل ہے ۔
فاروق بجارانی

بنگلور پیلس ۔ کرناٹیکاانڈیا
05/11/2024

بنگلور پیلس ۔ کرناٹیکا
انڈیا

یہ دیکھیے! 1931 کی مردم شماری کی کتاب، جس میں اُس زمانے کا بلوچستان بسا ہوا ہے! اُس وقت بلوچستان کی کل آبادی 8 لاکھ 68 ہ...
31/10/2024

یہ دیکھیے! 1931 کی مردم شماری کی کتاب، جس میں اُس زمانے کا بلوچستان بسا ہوا ہے! اُس وقت بلوچستان کی کل آبادی 8 لاکھ 68 ہزار تھی۔ بلوچ 2 لاکھ 29 ہزار، براہوی 1 لاکھ 52 ہزار اور پٹھان 1 لاکھ 98 ہزار کی تعداد میں تھے۔ جٹ، لاسی اور سادات بھی اپنے اپنے قبیلوں کے ساتھ بلوچستان کے نقشے کا حصہ تھے۔

یہ تو قبائل کی بات ہوئی، لیکن بلوچستان میں مذاہب کی خوبصورتی بھی دیکھیں! ہندو برادری کی تعداد 53 ہزار اور سکھ 8 ہزار تھے، جبکہ عیسائی، زرتشتی اور جین مذہب کے ماننے والے بھی یہاں آباد تھے۔

اور ایک دلچسپ حقیقت! کوئٹہ-پشین میں ہر مربع میل پر 1426 لوگ آباد تھے، لیکن جیسے ہی آپ بولان یا چاغی جیسے دور دراز علاقوں میں جاتے، وہاں صرف 1 یا 2 لوگ فی مربع میل ملتے۔

یہ دستاویزات آج کے بلوچستان کی کہانی کو وقت کی گہرائیوں سے نکال کر ہمارے سامنے لاتی ہیں۔ یہ وہ بلوچستان ہے جو اپنے اندر قبائل، مذاہب اور ثقافتوں کا خزانہ چھپائے ہوئے ہے — کاپی

تیل کے ذخائر کی دریافت سے پہلے کا متحدہ عرب امارات۔ دبئی، 1976
04/10/2024

تیل کے ذخائر کی دریافت سے پہلے کا متحدہ عرب امارات۔
دبئی، 1976

خضدار بلوچستان ❣️
03/10/2024

خضدار بلوچستان ❣️

ہرنائی اور کوئٹہ کے درمیان تقسیم کے قریب کیچ اسٹیشن اور بلاک ہاؤس 1895
01/10/2024

ہرنائی اور کوئٹہ کے درمیان تقسیم کے قریب کیچ اسٹیشن اور بلاک ہاؤس 1895

Address

Dubai
00000

Telephone

+923336497796

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Koh e Sulaiman Explorer posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share