Tourism Guide Book

Tourism Guide Book Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Tourism Guide Book, Tourist Information Center, Basement No. 2, Azeem Mansion, Fazl-e-Haq Road, Blue area.

سی پیک: گلگت بلتستان کے خوابوں کی تعبیر اور تاریخ کے سبقتحریر۔سونیا زہراءکچھ منصوبے محض سڑکیں، پل یا پاور پلانٹس نہیں ہو...
02/08/2025

سی پیک: گلگت بلتستان کے خوابوں کی تعبیر اور تاریخ کے سبق
تحریر۔سونیا زہراء
کچھ منصوبے محض سڑکیں، پل یا پاور پلانٹس نہیں ہوتے۔ کچھ خواب ہوتے ہیں جو آنکھوں میں بسائے جاتے ہیں، کچھ وعدے ہوتے ہیں جو تاریخ کے اوراق میں رقم کیے جاتے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ایسا ہی ایک وعدہ ہے جو گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقے کو ایک نئے عہد کی طرف لے جا رہا ہے۔ لیکن یہ کوئی انوکھا تجربہ نہیں۔ دنیا بھر میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کو شروع میں شک کی نظر سے دیکھا گیا، مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہی منصوبے قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے: بڑے منصوبے، بڑی تبدیلیاں معاشرے میں روشناس کرواتے ہیں
جب امریکہ نے "انٹر اسٹیٹ ہائی وے سسٹم بنانا شروع کیا تو کئی لوگوں نے اسے پیسے کا ضیاع قرار دیا۔ آج یہی 48,000 میل لمبی شاہراہیں امریکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اسی طرح، چین کا تھری گیجز ڈیم"منصوبہ شروع میں تنقید کا نشانہ بنا، مگر آج یہ دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈرو پاور پلانٹ ہے جو چین کی توانائی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ جرمنی کی آٹوبان" ہائی وے بھی ابتدا میں ایک مہنگا خواب لگتی تھی، لیکن آج یہ یورپ کی مضبوط ترین معیشت کی علامت ہے۔
یہ منصوبے ثابت کرتے ہیں کہ ترقی کے بڑے کاموں کو فوری نتائج کے لیے نہیں، بلکہ دوررس اثرات کے لیے دیکھا جاتا ہے۔ سی پیک بھی ایسا ہی ایک منصوبہ ہے جس کے فوائد آنے والی دہائیوں میں پاکستان کو ملتے رہیں گے۔
گلگت بلتستان کو قدرت نے جتنا خوبصورت بنایا، سیاست نے اسے اتنا ہی نظرانداز کیا۔ لیکن آج سی پیک کی بدولت یہ خطہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے اقتصادی نقشے پر ایک اہم مقام بن چکا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں اب صرف پتھر اور کدال نہیں، بلکہ نئے مواقع، نئی امیدیں ہیں۔ جب قراقرم ہائی وے پر چین سے آنے والے قافلے گزرتے ہیں تو یہ محض مال بردار گاڑیاں نہیں ہوتیں، بلکہ ترقی کے پیامبر ہوتے ہیں۔
لیکن افسوس، ایک منظم پروپیگنڈا یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ سی پیک سے صرف بڑے شہروں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ یہ جھوٹ ہے۔ کیا سڑکیں بننا، بجلی کے منصوبے تعمیر ہونا، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونا—یہ سب "نظرانداز" ہونے کی علامتیں ہیں؟ کیا وہ خواتین جو اب اپنے ہنر سے گھر بیٹھے کمائی کر رہی ہیں، وہ ترقی کا حصہ نہیں؟ کیا وہ نوجوان جو اب تعمیراتی منصوبوں میں ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں، وہ اس تبدیلی کے گواہ نہیں؟
پروپیگنڈے کا ہدف عموماً عوامی ذہن کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی نہ کرے، اس لیے وہ سی پیک جیسے منصوبوں کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ہونے والی ترقی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیا ہنزہ میں سیاحت کی بڑھتی ہوئی رونق ایک فریب ہے؟ کیا دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبوں سے مقامی لوگوں کو روزگار نہیں مل رہا؟ - کیا خواتین کی خودمختاری کوئی جعلی کہانی ہے؟
یہ سب سوال ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو سی پیک کو مشکوک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سی پیک صرف ایک اقتصادی راہداری نہیں، یہ ہماری قومی یکجہتی کا استعارہ ہے۔ یہ پاکستان اور چین کی دوستی ہی نہیں، بلکہ پاکستان کے اندر ترقی کی ایک نئی لہر ہے۔ گلگت بلتستان اس لہر کا پیش رو ہے۔ یہاں کی چٹانوں پر اب صرف برف نہیں پگھل رہی، بلکہ پسماندگی کے جمود کا بھی خاتمہ ہو رہا ہے۔
مستقبل روشن ہے، بس ہمیں اسے پہچاننے کی ضرورت ہے۔ سی پیک کوئی جادو کی چھڑی نہیں جو راتوں رات سب کچھ بدل دے گی۔ یہ ایک سفر ہے، اور ہم سب اس کے مسافر ہیں۔ اگر ہم نے اس موقع کو غنیمت جانا، تو آنے والی نسلیں ہمیں ضرور یاد رکھیں گی۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

گلگت بلتستان میں قدرتی آفات کے دوران پاک فوج کا مثبت کردارتحریر: سُہانا کلیگلگت بلتستان قدرت کے حسن، بلند پہاڑوں، گلیشیئ...
02/08/2025

گلگت بلتستان میں قدرتی آفات کے دوران پاک فوج کا مثبت کردار
تحریر: سُہانا کلی

گلگت بلتستان قدرت کے حسن، بلند پہاڑوں، گلیشیئرز اور خوبصورت وادیوں کا خطہ ہے، لیکن اس کے پہاڑ، اس کے دریا، اس کی برف... سب خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک خوفناک پہلو بھی رکھتے ہیں۔ یہاں ہر سال قدرتی آفات جیسے گلاف (Glacial Lake Outburst Floods)، کلاؤڈ برسٹ، لینڈ سلائیڈنگ اور شدید بارشوں اور برفباری سے جان و مال کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ فطری آزمائشیں اکثر خاموشی سے آتی ہیں اور سب کچھ بہا لے جاتی ہیں: گھر، بچے، خواب، امیدیں...
ایسے میں جب ہر طرف خوف، بے بسی اور کٹاؤ کا عالم ہوتا ہے، تو فوراً پاکستان آرمی حرکت میں آتی ہے۔
یہ وہی فوج ہے جو نہ صرف سرحدوں پر دشمن کے خلاف صف آرا ہوتی ہے، بلکہ وطن کے اندر بھی ہر آزمائش میں سب سے پہلے پہنچتی ہے۔ جان دینے سے لے کر جان بچانے تک، ہر کام، ہر آزمائش، ہر مصیبت میں حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔
حالیہ دنوں کی بات کریں تو
2024–2025 کے مون سون سیزن میں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں خصوصاً دیامر، تھلیچی، بابوسر، داریل تانگیر، غذر اور گلگت شہر میں شدید بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب نے تباہی مچا دی۔
غذر کے علاقے اشکومن، پونیال اور گوپس میں گھروں کے اندر پانی بھر گیا، پل بہہ گئے، درجنوں خاندان بے گھر ہو گئے۔
گلگت شہر میں گورنر ہاؤس کے قریب نالے ابل پڑے، بازار بند ہو گئے، اور لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔
درجنوں مکانات، رابطہ سڑکیں، پُل، فصلیں اور مال مویشی بہہ گئے۔ کم از کم 5 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ سب سے مشکل مرحلہ رابطہ منقطع ہونے کا تھا — نہ کوئی مدد، نہ رسائی۔
ایسے میں پاک فوج کے جوان سب سے پہلے پہنچے۔
ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ریسکیو آپریشنز کیے گئے، لینڈ سلائیڈنگ سے بند راستوں کو کلیئر کیا گیا، زخمیوں کو طبی امداد دی گئی، اور دور دراز علاقوں تک خوراک و پانی پہنچایا گیا۔
بابوسر اور تھلیچی جیسے خطرناک مقامات پر جب کوئی نہیں پہنچ سکا، فوج کے جوان وہاں بھی پہنچے — ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالا، خواتین و بچوں کو محفوظ مقام تک پہنچایا۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ یہ تسلسل ہے۔
اگر ہم پچھلی دہائی پر نظر ڈالیں، تو گلگت بلتستان میں ہر قدرتی آفت میں پاک فوج فرنٹ لائن پر رہی ہے۔
2010، 2015، 2022 اور اب 2024–2025 — ہر بڑے سیلاب، برفانی طوفان یا لینڈ سلائیڈنگ میں فوج نے NDMA، GBDMA اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر بروقت ریسکیو اور ریلیف آپریشن کیے۔
2022 میں UNOCHA (United Nations Office for the Coordination of Humanitarian Affairs) نے اپنی رپورٹ میں خاص طور پر گلگت بلتستان میں GLOF سے نمٹنے میں پاک فوج کے کردار کو سراہا۔
اسی سال، صرف گلگت بلتستان میں 627 ہیلی کاپٹر سورٹیز کے ذریعے 4,659 افراد کو ریسکیو کیا گیا، 11 لاکھ سے زائد افراد کو طبی امداد دی گئی، اور ہزاروں ٹن امدادی سامان تقسیم کیا گیا۔
یہ صرف اعداد و شمار نہیں یہ ہزاروں زندگیوں، آنکھوں کے آنسوؤں، اور دلوں کی دعاؤں کی گواہی ہے۔
یہی نہیں، 2012 کا سیاچن گیاری ایوالانچ، جس میں 130 سے زائد فوجی شہید ہوئے، پاک فوج نے دنیا کا سب سے مشکل ریسکیو آپریشن انجام دیا۔
450 سے زائد افراد اور جدید مشینری نے برف کے نیچے دبے جوانوں تک رسائی حاصل کی — یہ صرف فرض نہیں، ایک عہد تھا۔
یہ ادارہ صرف ہماری سرحدوں کا محافظ نہیں، بلکہ ہر اُس لمحے کی ڈھال ہے جب پوری قوم آزمائش میں ہوتی ہے۔
جب ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے، جب کچے گھر پانی میں بہہ جاتے ہیں، جب بچے بھوکے ہوتے ہیں، جب کوئی ماں اپنے بچوں کو لے کر کھلے آسمان تلے بیٹھی ہوتی ہے,تو پاک فوج اُمید کی پہلی کرن بن کر اُبھرتی ہے۔

فوج کے جوان نہ صرف پہاڑوں پر دشمن کی گولیوں کا سامنا کرتے ہیں، بلکہ انہی پہاڑوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے دبے افراد کو نکالنے کے لیے بھی بیلچہ اُٹھاتے ہیں۔
نہ صرف بارودی سرنگیں ہٹاتے ہیں، بلکہ پانی میں ڈوبے علاقوں میں لوگوں کو کندھوں پر اُٹھا کر محفوظ مقام تک بھی پہنچاتے ہیں۔
نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں دشمن کی بری نگاہ اور چالوں سے، بلکہ قدرتی آفات سے بھی اس وطن کو محفوظ رکھتے ہیں۔
پاک فوج صرف بارڈر پر ڈیوٹی نہیں دیتی، اور نہ ہی صرف جنگ کے دوران سامنے آتی ہے — یہ ہر مشکل، ہر آفت میں سب سے پہلے آگے آتی ہے۔
اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر، اپنے ملک اور قوم کی حفاظت کرتی ہے۔ پاکستان آرمی صرف ایک عسکری طاقت نہیں — یہ قومی سلامتی، خدمت، قربانی اور جذبے کی علامت ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو ہر مشکل وقت میں سب سے پہلے پہنچتا ہے، اور آخری لمحے تک ساتھ نبھاتا ہے۔ وطن کے دفاع سے لے کر قانون کی پاسداری، قدرتی آفات میں عوام کی خدمت، اور انسانی جانوں کی حفاظت — ہر محاذ پر یہ ادارہ ہمیشہ حاضر ہے، ہمیشہ تیار ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہم اکثر صرف جنگ کے دنوں میں ’’پاک فوج زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں،
لیکن ان کے اصل کارنامے ان آفات کے دنوں میں دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم ان کے کردار کو صرف مشکل وقت تک محدود نہ رکھیں۔
ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں، ان کے جذبے کو سمجھیں، اور انہیں صرف ایمرجنسی میں نہیں،
بلکہ ہر دن عزت، محبت اور اعتماد دیں۔
کیونکہ جب بھی کوئی آفت آئے گی،
جب بھی اندھیرا چھائے گا،
جب بھی کسی ماں کی فریاد بلند ہوگی
سب سے پہلے جو پہنچے گا... وہی ہوگا —
پاکستان آرمی۔

رانی کوٹ، جسے "سندھ کی عظیم دیوار" کے نام سے جانا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو میں واقع ایک تاریخی اور پ...
31/07/2025

رانی کوٹ، جسے "سندھ کی عظیم دیوار" کے نام سے جانا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو میں واقع ایک تاریخی اور پراسرار قلعہ ہے۔ یہ قلعہ دنیا کے سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے، جس کا گھیراؤ تقریباً 32 کلومیٹر طویل ہے۔ اس کی تعمیر کا اصل مقصد اور وقت آج تک ایک معمہ ہے۔ کچھ مؤرخین اسے ساسانی دور کی نشانی مانتے ہیں، جبکہ کچھ اسے تالپور حکمرانوں کی جانب سے انیسویں صدی میں مرمت شدہ قرار دیتے ہیں۔ قلعے کی دیواریں پہاڑی سلسلہ کوہ کیرتھر کے نشیب و فراز پر اس طرح تعمیر کی گئی ہیں کہ یہ قدرتی مناظر کے ساتھ ہم آہنگ دکھائی دیتی ہیں۔ قلعے میں داخلے کے لیے چار مرکزی دروازے ہیں: سن گیٹ، امری گیٹ، موہن گیٹ اور شاہ پیر گیٹ۔ قلعے کے اندر "میری کوٹ" نامی ایک اور چھوٹا قلعہ بھی موجود ہے جو شاہی رہائش کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ رانی کوٹ نہ صرف تاریخی اہمیت کا حامل مقام ہے بلکہ فطری حسن، پرامن ماحول اور قدیم تعمیراتی فن کا شاندار امتزاج بھی پیش کرتا ہے۔ یہ جگہ آج بھی مکمل طور پر دریافت نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے اس میں ایک خاص پراسراریت باقی ہے۔ فوٹوگرافی، ہائیکنگ، اور تاریخ سے محبت رکھنے والے افراد کے لیے یہ مقام ایک جنت سے کم نہیں۔

شمالی پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقے میں واقع، دیوسائی نیشنل پارک قدرت کا ایک ایسا شاہکار ہے جو اپنی وسعت، خاموشی، اور...
30/07/2025

شمالی پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقے میں واقع، دیوسائی نیشنل پارک قدرت کا ایک ایسا شاہکار ہے جو اپنی وسعت، خاموشی، اور قدرتی حسن کے باعث دنیا بھر کے سیاحوں کو حیران کر دیتا ہے۔ "دیوسائی" کا مطلب ہے "دیووں کی سرزمین"، اور واقعی یہ مقام اپنے بلند و بالا میدانوں اور بادلوں سے باتیں کرتے آسمان کے باعث ایک جادوئی دنیا محسوس ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بلند ترین میدان ہے، جو سطح سمندر سے تقریباً 13,000 فٹ (4,114 میٹر) کی بلندی پر واقع ہے۔

دیوسائی کو 1993 میں نیشنل پارک کا درجہ اس لیے دیا گیا تاکہ یہاں پائے جانے والے نایاب ہمالیائی بھورے ریچھ (Himalayan Brown Bear) کی نسل کو معدومی سے بچایا جا سکے۔ آج یہ علاقہ نہ صرف ان ریچھوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے بلکہ یہاں برفانی چیتے، لال لومڑیاں، مارموٹ، ہمالیائی آئبیکس، اور 200 سے زائد پرندوں کی اقسام بھی پائی جاتی ہیں۔ ہر سال جون سے ستمبر تک، یہ وسیع میدان ہزاروں رنگ برنگے جنگلی پھولوں سے بھر جاتا ہے، اور فضا ایک خوبصورت خوشبو سے مہک اٹھتی ہے۔

دیوسائی تک رسائی صرف گرمیوں کے مہینوں میں ممکن ہوتی ہے۔ اس خوبصورت مقام تک دو اہم راستے ہیں: ایک اسکردو کے راستے سدپارہ جھیل سے ہو کر جاتا ہے، اور دوسرا استور کے علاقے چلم سے گزرتا ہے۔ پارک کے اندر ایک اہم مقام شیوسر جھیل ہے، جو اپنی خاموشی، شفاف پانی اور اردگرد برف سے ڈھکی پہاڑیوں کی موجودگی میں کسی خواب جیسا منظر پیش کرتی ہے۔ کالا پانی اور بڑا پانی جیسے مقامات بھی قدرتی خوبصورتی سے بھرپور ہیں اور اکثر کیمپنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

سیاحوں کے لیے دیوسائی محض ایک جگہ نہیں، بلکہ ایک احساس ہے۔ یہاں آپ خیمہ لگا کر ستاروں سے بھری رات کا لطف اٹھا سکتے ہیں، پیدل سفر کر کے وادی کے پوشیدہ رازوں کو دریافت کر سکتے ہیں، اور پرندوں کی آوازوں میں قدرت کی موسیقی سن سکتے ہیں۔ چونکہ یہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سفر پر نکلنے سے پہلے مکمل تیاری کی جائے — گرم کپڑے، کھانے پینے کا سامان، ایندھن، اور فور بائی فور گاڑی کا انتظام ہونا چاہیے۔ مقامی گائیڈ کے ساتھ جانا سب سے بہتر ہوتا ہے تاکہ آپ راستے اور موسم سے بخوبی آگاہ رہیں۔

گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے میں، اسکردو سے تقریباً 115 کلومیٹر کی دوری پر، ماچلو وادی ایک چھپی ہوئی جنت کی مانند ہے۔ جیسے...
29/07/2025

گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے میں، اسکردو سے تقریباً 115 کلومیٹر کی دوری پر، ماچلو وادی ایک چھپی ہوئی جنت کی مانند ہے۔ جیسے ہی آپ اس وادی میں قدم رکھتے ہیں، ایک عجیب سی خاموشی اور سادگی آپ کی روح کو چھو لیتی ہے۔ یہ وادی نہ صرف اپنی بے مثال قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ دنیا کی بلند و بالا چوٹیوں کے جادوئی نظاروں کی بدولت بھی دلوں کو مسحور کر دیتی ہے۔

ماچلو وادی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ K2، نانگا پربت، براڈ پیک، اور گاشربرم I و II جیسے عظیم پہاڑوں کو بیک وقت آسمان سے باتیں کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس نظارے کا اصل جادو ماچلو لا سے جڑا ہے — ایک ایسا مقام جو تقریباً 5071 میٹر کی بلندی پر واقع ہے، اور یہاں سے پاکستان کی پانچوں 8000 میٹر سے بلند چوٹیوں کا ایک ساتھ دیدار ممکن ہے۔ یہ منظر ایسا ہوتا ہے کہ جیسے وقت تھم جاتا ہو اور فطرت اپنی تمام تر عظمت کے ساتھ آپ کے سامنے جلوہ گر ہو۔

ماچلو لا تک کا سفر آسان نہیں — یہ ٹریک ایک سخت امتحان ہے۔ کئی گھنٹوں کی مسلسل چڑھائی، کھردرے راستے، پتھریلی ڈھلوانیں اور تیز ہوا کے جھونکے — سب کچھ مل کر اس مہم کو صرف اُن کے لیے ممکن بناتے ہیں جو پہاڑی ٹریکنگ کا تجربہ رکھتے ہوں یا غیر معمولی جسمانی قوت رکھتے ہوں۔ مگر جو اس آزمائش کو قبول کرتے ہیں، قدرت انہیں ایک ایسا تحفہ دیتی ہے جو زندگی بھر یاد رہتا ہے۔

ماچلو گاؤں کی فضا بھی الگ ہی جادو رکھتی ہے۔ یہاں کے لوگ سادگی، محبت، اور مہمان نوازی کی مثال ہیں۔ بلتی ثقافت کی جھلک ان کے لباس، کھانوں، بات چیت اور طرزِ زندگی میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ گاؤں کی قدیم مسجد، اپنے انوکھے طرزِ تعمیر کی بدولت، روحانیت اور ثقافت کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کرتی ہے۔

ماچلو وادی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اب تک بڑے پیمانے کی سیاحت سے محفوظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کا سکون، خاموشی، اور اصل فطرت اپنی مکمل شان کے ساتھ برقرار ہے۔ اپریل سے نومبر کا موسم اس وادی کی سیر کے لیے مثالی ہے۔ اگر آپ بھی فطرت کی بانہوں میں خود کو کھونا چاہتے ہیں تو ماچلو وادی آپ کے لیے ایک جیتا جاگتا خواب ہے۔

ہوپر ویلی، گلگت بلتستان کی وادی نگر میں واقع ایک جنت نظیر مقام ہے جو ناگر خاص سے تقریباً 10 سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر او...
28/07/2025

ہوپر ویلی، گلگت بلتستان کی وادی نگر میں واقع ایک جنت نظیر مقام ہے جو ناگر خاص سے تقریباً 10 سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر اور سطح سمندر سے 8,000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ وادی اپنی قدرتی خوبصورتی، برف سے ڈھکے پہاڑوں، سبزہ زاروں، بہتے چشموں اور دلکش گلیشیئر کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہاں واقع "ہوپر گلیشیئر" یا "بوالٹر گلیشیئر" نہ صرف وادی کی پہچان ہے بلکہ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ اس کے ارد گرد راکاپوشی اور دیران جیسے بلند و بالا برف پوش پہاڑ وادی کے حسن کو مزید جاذبِ نظر بناتے ہیں۔ سبز چراگاہیں، صاف پانی کی چھوٹی جھیلیں، اور فطرت کی خاموشی میں چھپا سکون اس جگہ کو ہر فطرت پسند شخص کے لیے جنت بنا دیتا ہے۔ ہوپر ویلی ہائیکنگ، ٹریکنگ، کیمپنگ، اور فوٹوگرافی کے شوقین افراد کے لیے ایک مثالی جگہ ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے گلگت سے کار یا جیپ کے ذریعے ناگر خاص اور وہاں سے ہوپر کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، جو بذات خود ایک خوبصورت سفر ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ شینا اور برشسکی زبانیں بولتے ہیں اور اپنی مہمان نوازی، سادگی اور فطرت سے ہم آہنگ زندگی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ان کا انحصار زراعت، مال مویشی، اور سیاحت پر ہے۔ ہوپر ویلی کی سیر کے لیے مئی سے ستمبر کا وقت سب سے موزوں سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس دوران برف کم ہوتی ہے، موسم خوشگوار ہوتا ہے اور راستے آسانی سے قابل رسائی ہوتے ہیں۔ اگر آپ قدرت سے قریب رہنا چاہتے ہیں، سکون کی تلاش میں ہیں یا نئی مہمات کے شوقین ہیں تو ہوپر ویلی آپ کے لیے بہترین انتخاب ہے — ایک ایسی جگہ جو صرف دیکھی نہیں، محسوس کی جاتی ہے۔

Not every adventure is worth the risk. The mountains will wait — but your safety won’t. Let’s be wise, stay home, and ke...
25/07/2025

Not every adventure is worth the risk. The mountains will wait — but your safety won’t. Let’s be wise, stay home, and keep ourselves and others safe. The real journey is protecting what matters most.

گلگت بلتستان کے پہاڑوں کے دامن میں واقع شاتیال ایک ایسا مقام ہے، جو ظاہراً خاموش ہے، مگر اس کی چٹانوں پر کندہ ہر نقش انس...
25/07/2025

گلگت بلتستان کے پہاڑوں کے دامن میں واقع شاتیال ایک ایسا مقام ہے، جو ظاہراً خاموش ہے، مگر اس کی چٹانوں پر کندہ ہر نقش انسان کی قدیم آواز بن کر آج بھی گونج رہا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں وقت رُک سا گیا ہے — اور ہر پتھر، ہر دراڑ، ہر علامت ایک کہانی سناتی ہے۔ یہ ہیں شاتیال کے پیٹروگلفس — ہزاروں سال پرانے وہ نقوش جو قبل از تاریخ انسان نے اپنے جذبات، عقائد، خوابوں اور خوف کو محفوظ کرنے کے لیے پتھروں پر تراشے۔

آج سے تقریباً 10,000 سال پہلے، جب نہ کوئی زبان مکمل تھی، نہ تحریر کا کوئی نظام، تب انسان نے اظہار کی ایک الگ راہ نکالی۔ اس نے تیز دھار اوزاروں سے چٹانوں کو صفحہ بنایا اور ان پر زندگی کے لمحات محفوظ کیے۔ شکار کے مناظر، جنگلی جانوروں کی اشکال، روحانی علامات، اور بدھ مت کے اسٹوپاز — سب کچھ ان چٹانوں پر آج بھی اسی طرح محفوظ ہے جیسے کل کی بات ہو۔

شاتیال کے یہ پیٹروگلفس صرف تصویریں نہیں، بلکہ انسانی ذہانت، تخلیق، روحانیت اور فطرت سے جڑنے کی پہلی کوشش ہیں۔ یہ وہ لمحے ہیں جب انسان نے پہلی بار اپنے اندر کے خیالات کو کائنات کے سامنے رکھنے کی ہمت کی — لفظوں کے بغیر، مگر مکمل وضاحت کے ساتھ۔

یہ پتھریلی کتاب ہمیں ہماری جڑوں تک واپس لے جاتی ہے۔ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم کہاں سے آئے، کیسے سوچا، کیسے محسوس کیا — اور کس طرح ایک "خاموش انسان" نے تاریخ کی پہلی تحریر لکھی۔

اگر آپ گلگت بلتستان جائیں، تو شاتیال صرف ایک راستہ نہیں — ایک عہد ہے۔ ایک ایسا لمحہ جو وقت میں جم گیا ہے۔ اسے دیکھنا، دراصل انسان کے اندر جھانکنے جیسا ہے۔

قراقرم ہائی وے، جو پاکستان اور چین کے درمیان ایک عظیم الشان شاہراہ کے طور پر جانی جاتی ہے، قدرت کے حسین ترین مناظر سے بھ...
25/07/2025

قراقرم ہائی وے، جو پاکستان اور چین کے درمیان ایک عظیم الشان شاہراہ کے طور پر جانی جاتی ہے، قدرت کے حسین ترین مناظر سے بھرپور ایک ناقابلِ فراموش سفر پیش کرتی ہے۔ اس شاہراہ کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے، جو ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ قراقرم ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے جب سیاح ہنزہ کی وادی میں داخل ہوتے ہیں، تو ایک ایسا نظارہ ان کا منتظر ہوتا ہے جو کسی خواب سے کم نہیں — اور وہ ہے پسو کونز کا دلکش منظر۔

پسو کونز، جنہیں "پسو کاتھڈرل" بھی کہا جاتا ہے، اپنی نوکیلی اور مخروطی چوٹیاں لیے آسمان کو چھوتی محسوس ہوتی ہیں۔ یہ منفرد پہاڑی ساخت بٹورا موزتاغ کے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے اور قدرت کی وہ تخلیق ہے جو دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ قراقرم ہائی وے کے کنارے سے ان چٹانوں کا نظارہ نہ صرف سیاحوں بلکہ فوٹوگرافرز کے لیے بھی ایک جادوئی منظر بن جاتا ہے، خاص طور پر سورج طلوع یا غروب ہوتے وقت جب سنہری روشنی ان چٹانوں پر پڑتی ہے۔

پسو کونز کی خوبصورتی کے علاوہ، قراقرم ہائی وے پر سفر کرنے کا تجربہ خود میں ایک مہم سے کم نہیں۔ ہر موڑ، ہر درہ، اور ہر گاؤں ایک نئی کہانی سناتا ہے۔ قراقرم ہائی وے اور پسو کونز کا امتزاج ایک ایسا نظارہ پیش کرتا ہے جو سیاح کے دل میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتا ہے۔ یہ صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ قدرت کے رنگوں، ثقافتوں اور تاریخ کا ایک دلکش سفر ہے۔

Update from Babusar RoadAll 250 stranded tourists have been successfully rescued — thanks to the swift response by the G...
24/07/2025

Update from Babusar Road
All 250 stranded tourists have been successfully rescued — thanks to the swift response by the Gilgit-Baltistan government and local authorities.
Travelers are urged to stay informed and cautious during monsoon travel.

Address

Basement No. 2, Azeem Mansion, Fazl-e-Haq Road
Blue Area
44000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tourism Guide Book posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share