
28/03/2025
جب صرف وردی نے دشمن کو بھگا دیا خلافتِ عثمانیہ کا رعب
یہ انیسویں صدی کا قصہ ہے
جب جرمنی کے شہر مولہائم میں دریائے رائن کے ایک کنارے پر جرمن آباد تھے
اور دوسرے کنارے پر فرانسیسی
ہر سال جب فصل تیار ہوتی
فرانسیسی بندوقوں کے زور پر آتے
اور جرمنوں کی تمام محنت چھین کر لے جاتے
اس وقت کے جرمن بےحد کمزور اور تقسیم کا شکار تھے
نہ اتحاد تھا نہ دفاع کی طاقت
وہ صرف ظلم سہہ سکتے تھے
کچھ کہہ نہیں سکتے تھے
یہ سلسلہ ہر سال دہرایا جاتا رہا
یہاں تک کہ مقامی لوگوں نے ایک نیا راستہ اختیار کیا
انہوں نے خلافتِ عثمانیہ کے سلطان کو ایک خط لکھا
جس میں فریاد کی گئی
کہ "ہم ہر سال لوٹے جاتے ہیں
ہماری محنت چھین لی جاتی ہے
اور ہم آپ کی سلطنتِ اسلامیہ اور عدل و انصاف سے بھرپور خلافت سے مدد چاہتے ہیں
ہماری فصل کو اس سال بچا لیجیے"
سلطان نے خط پڑھا
اور فوراً کوئی فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا
بلکہ تین بوریاں عثمانی فوج کی وردیوں سے بھر کر روانہ کیں
اور ساتھ ایک مختصر لیکن پُررعب پیغام بھیجا:
"فرانسیسی بزدل ہیں
انہیں فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں
بس اپنے آدمیوں کو ہماری فوج کی وردیاں پہنا دو
اور جب فصل کٹنے لگے تو دریائے رائن کے کنارے ان وردیوں میں چہل قدمی کرو
بس یہی کافی ہوگا"
جرمنوں نے ایسا ہی کیا
جب فصل کا وقت آیا
تو مرد و جوان سب عثمانی وردیوں میں ملبوس ہو کر دریائے کے کنارے گشت کرنے لگے
فرانسیسیوں کو جیسے ہی خبر ملی
کہ عثمانی فوج پہنچ گئی ہے
تو خوف کے مارے سب کچھ چھوڑ کر بھاگ گئے
نہ بندوق چلی
نہ کوئی سپاہی آیا
صرف وردی کا رعب ہی کافی ثابت ہوا
یہ واقعہ جرمن شہر مولہائم کی تاریخ کا حصہ بن گیا
جس کی یاد میں آج بھی وہاں
عثمانی وردیاں میوزیم میں رکھی گئی ہیں
شہر کی بلند ترین عمارت پر عثمانی پرچم لہرایا گیا
اور ہر سال ایک خصوصی تہوار منایا جاتا ہے
جس میں وہی منظر اداکاری کے ذریعے دہرایا جاتا ہے
یہ واقعہ صرف ایک قصہ نہیں
بلکہ اس بات کی گواہی ہے
کہ جب انصاف اور ہیبت ایک ساتھ ہو
تو صرف نام اور لباس بھی دشمن کو جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے
ایسا تھا خلافتِ عثمانیہ کا رعب
ایسا تھا مسلمانوں کا وقار
اور ایسا تھا عزت و خوف جسے صرف کردار سے حاصل کیا جاتا ہے
نہ کہ تعداد یا اسلحے سے