سرفہ رنگاہ اپڈیٹ

سرفہ رنگاہ اپڈیٹ Sarfaranga update shares the latest news, updates, and stories from our village. Stay informed about local events, culture, and community initiatives.

Join us in celebrating Sarfaranga’s heritage and keeping our village connected.

قبلہ شہنشاہ نقوی اور قبلہ حسن   ظفرنقوی اور دیگر علماء کرام کو سر زمین اہلیبت میں خوش آمدید
26/03/2025

قبلہ شہنشاہ نقوی اور قبلہ حسن ظفرنقوی اور دیگر علماء کرام کو سر زمین اہلیبت میں خوش آمدید

22/03/2025

مضاربہ اور تضارب آرا اور اس کا حل
کاوش: فدا حسین عابدی
مقدمہ:
مضاربہ ایک اہم اقتصادی اور شرعی مسئلہ ہے، جسے شیعہ اور اہل سنت دونوں کے فقہاء متفقہ طور پر جائز قرار دیتے ہیں۔ فقہِ حکومتی وسائل کی اقتصادی سروس کی رپورٹ کے مطابق، مضاربہ ایک اہم بینکاری معاہدہ ہے۔
اسی طرح سودی کاروبار یا معاملہ بھی ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کے عدم جواز پر شرعی اور قرآنی دلائل متفق ہیں۔ تاہم، بلتستان میں ایک عرصے سے مضاربہ اور سود کے مسئلے پر غیر ضروری غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ عام عوام کی کم علمی، علمائے دین کی طرف سے مسئلے کی مناسب وضاحت نہ ہونے، اور بعض مغرض عناصر کی سازشوں کے باعث یہ معاملہ تنازعہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
بعض عناصر دین و مذہب اور علمائے دین کے خلاف زہر افشانی کرکے عوام کو گمراہ کرنے اور علما و عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مضاربہ کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے تاکہ ان سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ مرکزی علمائے کرام نے بروقت اقدام کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل کی جانب ایک مثبت قدم اٹھایا، جس کے نتیجے میں ان سازشی عناصر کو کسی حد تک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، اس موضوع پر مزید علمی اور فقہی بحث کی ضرورت باقی ہے۔
ہم سب قرآن و سنت کے پابند ہیں اور فقہائے عظام کے فتاویٰ کی روشنی میں عمل کرنا ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔ البتہ، علمی اختلاف ایک فطری امر ہے اور نظریات کی ترقی اور علم کی پختگی کے لیے ضروری بھی ہے۔ حدیث "اختلاف أمتي رحمة" کا اصل مقصد بھی یہی علمی اختلاف ہے، جسے افہام و تفہیم اور سنجیدہ علمی مباحث کے ذریعے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔
مضاربہ کی لغوی تعریف
"مضاربہ" ایک عربی اصطلاح ہے جس کا کوئی متبادل فارسی یا انگریزی اور اردو میں شاید نہیں ہے۔ عربی زبان میں الفاظ ہمیشہ کسی مناسبت کے ساتھ رکھے جاتے ہیں، اور دیگر زبانوں میں بھی کسی حد تک یہی اصول پایا جاتا ہے۔
لفظ "مضاربہ" مادہ"ضرب" سے مشتق ہے، اور چونکہ ماضی میں تجارتی سفر کے لیے زمین پر چلنا ضروری ہوتا تھا، اس لیے سفر کو"ضرب فی الأرض" کہا جاتا تھا، جو سفر کے معنی میں کنایہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے اس مخصوص تجارتی معاہدے کو مضاربہ کہا گیا ہے۔
اہل لغت کے درمیان اس لفظ کے اشتقاق کے بارے میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس کے مختلف ممکنہ معانی بیان کیے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
فیومی کہتے ہیں: "ضربت فی الأرض؛ سافرت و فی السیر أسرعت و ضارب فلان فلانا (مضاربہ) "ضرب" سے لیا گیا ہے۔ (المصباح المنیر، ج ۲، ص ۵۲۶)
ترجمہ: "ضرب فی الأرض کا مطلب ہے سفر کرنا اور تیز چلنا۔ مضاربہ بھی اسی مادہ "ضرب" سے لیا گیا ہے۔"
جوهری کہتے ہیں: "وضرب فی الأرض ضربا و مضربا بالفتح؛ أی صار فی ابتغاء الرزق و ضاربه فی المال من المضاربة و هی القراض؛(الصحاح، ج ۳، ص ۱۴۰۷)
ترجمہ: "ضرب فی الأرض کا مطلب ہے روزی کی تلاش میں زمین پر سفر کرنا۔ ضاربہ فی المال، مضاربہ ہی ہے، جسے قراض بھی کہتے ہیں۔"
ابن منظور کہتے ہیں: **"رب"** کا مطلب مال کو حرکت دینا اور گردش میں لانا ہے، اسی وجہ سے اس معاہدے کو **"مضاربہ"** کہا گیا ہے۔
ابن منظور:"الرب"هو تحريك المال وتدويره، ولذلك سُمِّي هذا العقد"المضاربة"؛ " رب" کا مطلب مال کو حرکت دینا اور گردش میں لانا ہے، اسی وجہ سے اس معاہدے کو مضاربہ کہا گیا ہے۔(لسان العرب، ج ۹، ص ۶۵۴)
زمخشری لکھتے ہیں:" ضاربته بالمال و فی المال، و ضارب فلان لفلان فی ماله: اتجر له فیه" (أساس البلاغة، ج ۱، ص ۷۸) ترجمہ: "ضاربہ فی المال کا مطلب ہے کسی اور کے مال سے تجارت کرنا۔"
لغت کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مضاربہ"ضرب" سے لیا گیا ہے، اور اس سے مراد سفر کے ذریعے تجارت کرنا ہے۔
فقہی اصطلاح میں مضاربہ کی تعریف
مضاربہ فقہاء کے نزدیک ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ایک شخص (مالک) اپنا سرمایہ دوسرے شخص (عامل) کو تجارت کے لیے دیتا ہے، اور حاصل شدہ منافع کو طے شدہ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مختلف فقہاء نے مضاربہ کی درج ذیل تعریفات پیش کی ہیں:
1. صاحب جواہر: "مضاربہ وہ ہے جس میں ایک شخص دوسرے کو مال دیتا ہے تاکہ وہ اس میں کام کرے اور نفع میں سے ایک مقررہ حصہ پائے۔" (جواہر الکلام، ج 26، ص 390)
2. محقق بحرانی: "یہ ایک شرعی معاہدہ ہے جس میں کوئی شخص دوسرے کے مال سے تجارت کرتا ہے اور نفع میں سے حصہ لیتا ہے۔" (الحدائق الناضرة، ج 18، ص 317)
3. سید کاظم طباطبائی: "مضاربہ یہ ہے کہ انسان اپنا مال دوسرے کے حوالے کرتا ہے تاکہ وہ اس سے تجارت کرے اور منافع کو باہمی تقسیم کرے۔" (عروۃ الوثقی، کتاب المضاربہ)
4. آیت اللہ خویی: "یہ معاہدہ ہے جس میں ایک شخص دوسرے کو مال دیتا ہے تاکہ وہ اس میں تجارت کرے اور نفع میں نصف یا ثلث یا کسی اور متعین نسبت سے حصہ حاصل کرے۔" (منهاج الصالحین، ج 2، ص 375)
5. امام خمینی: "یہ ایک معاہدہ ہے جو دو افراد کے درمیان ہوتا ہے، جس میں ایک کا سرمایہ اور دوسرے کا عمل ہوتا ہے۔" (تحریر الوسیلة، ج 2، ص 918)
مضاربہ کی شرعی حیثیت اور اس کے دلائل
سیرت عقلاء
اسلام سے پہلے عرب میں مضاربہ کا رواج تھا، خاص طور پر مکہ میں جہاں زمین زراعت کے لیے موزوں نہیں تھی، لوگ تجارت کرتے تھے۔ قرآن کریم میں قریش کی تجارت کا ذکر ملتا ہے:
"لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ۝ إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ" (سورہ قریش: 1-2)
تاریخی روایات کے مطابق، حضرت عباس بن عبدالمطلب مضاربہ کیا کرتے تھے۔ امام صادق (ع) کی حدیث میں مذکور ہے:
"کان للعباس مال مضاربه فکان یشترط ان لایرکبوا بحرا و لاینزلوا وادیاً، فان فعلتم فانتم ضامنون، فاجاز رسول الله (ص) شرطه علیهم۔" (وسائل الشیعہ، ج 13، ص 185) عباس کے پاس مضاربت کا مال تھا، اور وہ (مضاربین پر) یہ شرط عائد کرتے تھے کہ وہ سمندر میں سفر نہ کریں اور کسی وادی میں نہ اتریں۔ (اور فرماتے تھے:) ’’اگر تم نے ایسا کیا تو تم ضامن ہوگے۔‘‘ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر ان کی یہ شرط جائز قرار دی۔
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مضاربہ نہ صرف عقلائی طور پر مقبول تھا بلکہ نبی کریم (ص) نے بھی اسے برقرار رکھا۔
قرآن میں مضارَبہ
بعض فقہاء نے مضاربہ کے جواز کے لیے قرآن کریم کی دو آیات سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیات مضاربہ پر دلالت کرتی ہیں۔
پہلی آیت:"لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلاً مِن رَبِّکُمْ"؛() حج کے دوران اگر تم تجارت (خرید و فروخت) کرنا چاہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔"
وسری آیت:"َآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِی الْأَرْضِ یَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ"()؛اور کچھ لوگ زمین میں سفر کرتے ہیں تاکہ اللہ کا فضل (رزق و روزی) حاصل کریں۔"

چونکہ بعض اہلِ علم کے نزدیک "مضاربہ"کا ماخذ"ضرب"ہے اور"ضرب" کا مطلب زمین میں چلنا یا سفر کرنا ہے، اس لیے ان کے نزدیک دوسری آیت صراحت کے ساتھ مضاربہ پر دلالت کرتی ہے، جبکہ پہلی آیت صرف مضاربہ کے مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اسی نظریے کو محقق مقدس اردبیلی (رحمہ اللہ) نے اختیار کیا اور فرمایا کہ یہ آیات عمومی طور پر مضاربہ پر دلالت کرتی ہیں، لیکن بیع اور تجارت پر زیادہ صریح دلالت رکھتی ہیں۔
ج: روایات میں مضاربہ
مضاربہ سے متعلق مختلف احادیث منقول ہیں، جنہیں درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1۔ بعض روایات میں اصل مضاربہ پر بحث کی گئی ہے کہ آیا یہ عقد (معاہدہ) درست ہے یا نہیں۔
2. بعض روایات میں مضاربہ کی شرائط پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
3. بعض احادیث میں مضاربہ کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔
اب ہم وہ روایات ذکر کرتے ہیں جو واضح طور پر یا لازمی طور پر مضاربہ کے جوازپر دلالت کرتی ہیں۔
پہلی روایت:" محمد بن مسلم نے امام باقر یا امام صادق (علیہما السلام) سے مضاربہ کے بارے میں سوال کیا: "سالته عن الرجل یعطی المال مضاربه، و ینهی ان یخرج به فخرج. قال: یضمن المال و الربح بینهما."(الکافی، ج 5، ص 241)
اگر ایک شخص کسی دوسرے کو مضاربہ کے طور پر مال دے اور مالک، عامل کو منع کرے کہ وہ مال کو کسی دوسری جگہ نہ لے جائے، لیکن عامل اس کے باوجود مال لے کر چلا جائے تو امام نے فرمایا: عامل ضامن ہوگا، اور نفع دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ: اصل مضاربہ درست ہے۔ گر عامل، مالک کی شرط کی خلاف ورزی کرے، تو وہ نقصان کا ذمہ دار ہوگا۔
دوسری روایت:"حضرت امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:" کان للعباس مال مضاربه فکان یشترط ان لایرکبوا بحرا و لاینزلوا وادیا فان فعلتم فانتم ضامنون، فابلغ ذالک رسول الله (صلی الله علیه و آله) فاجاز شرطه علیهم؛ عباس، جو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا تھے، اپنے مال کو مضاربہ کے ذریعے تجارت میں لگاتے تھے اور شرط رکھتے تھے کہ عامل سمندر میں سفر نہ کرے اور نہ ہی کسی خطرناک وادی میں جائے، ورنہ نقصان کا خود ذمہ دار ہوگا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اطلاع دی گئی تو آپ نے عباس کی شرط کو جائز قرار دیا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ:
- مضاربہ کا معاہدہ اسلام سے پہلے بھی رائج تھا۔
- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مضاربہ کی تائید فرمائی۔
- مالک اور عامل کے درمیان شرائط مقرر کرنا جائز ہے۔
تیسری روایت:"عبدالرحمن بن ابی عبداللہ نے امام صادق (علیہ السلام) سے سوال کیا:"عن الرجل یکون معه المال مضاربه، فیقل ربحه فیتخوف ان یؤخذ فیزید صاحبه علی شرطه الذی کان بینهما و انما یفعل ذالک مخافه ان یؤخذ منه قال لاباس به"؛اگر ایک شخص مضاربہ کے طور پر سرمایہ لے اور کم منافع کمائے، پھر ڈر ہو کہ مالک نفع کم ہونے پر معاہدہ ختم کر دے، تو عامل اپنی طرف سے کچھ مزید نفع مالک کو دے سکتا ہے۔ امام نے فرمایا:اس میں کوئی حرج نہیں۔
اس حدیث سے درج ذیل نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں:
- مضاربہ کا معاہدہ جائز ہے۔
- اگر معاہدے میں عامل کا نفع مقرر ہو، لیکن وہ اپنی مرضی سے مالک کو مزید دے، تو یہ جائز ہے۔
- یہ معاملہ سود (ربا) میں شمار نہیں ہوگا کیونکہ یہ عامل کی طرف سے بطور ہدیہ دیا جا رہا ہے۔
مضاربہ کے متعلق وارد شدہ احادیث متواتر معنوی کے درجے تک پہنچتی ہیں، یعنی ان کی کثرت کے باعث ان میں کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ روایات مختلف امور پر روشنی ڈالتی ہیں، جیسے:
-مضاربہ کے جواز یا لزوم
- اس کی شرائط
- ضمانت (یعنی نقصان کی ذمہ داری کس پر ہوگی۔
چونکہ اس موضوع پردرجنوں روایات موجود ہیں، اس لیے یہ مضاربہ کے صحیح ہونے کا سب سے واضح اور مضبوط شرعی ثبوت ہے۔
اہل سنت کے نزدیک مضاربہ
عقدِ مضاربت دو شخصوں کے درمیان ایسے معاہدے کو کہا جاتا ہے جس میں ایک جانب سے سرمایہ اور دوسری جانب سے محنت ہو اور پھرحاصل ہونے والا نفع دونوں کے ما بین حسبِ معاہدہ تقسیم کیا جاتا ہو۔
مضاربت کے بنیادی اصول وشرائط درج ذیل ہیں:
(1) مضاربت میں سرمایہ کا نقدی ہونا ضروری ہے، اگر سرمایہ سامان، قرض یا جامد اثاثوں کی شکل میں ہوگا تو مضاربت صحیح نہیں ہوگی۔
(2) عقدِ مضاربت کے وقت سرمایہ کا اس طور پر معلوم ہونا ضروری ہے کہ بعد میں کسی قسم کا کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو، یعنی رب المال مضارب کو سرمایہ پر قبضہ کرادے یا اس کی طرف اشارہ کردے۔
(3) عقدِ مضاربت میں سرمایہ مکمل طور پر مضارب کے حوالہ کرنا ضروری ہے، اس طور پر کہ پھر اس سرمایہ میں رب المال کا کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہ رہے، اسی طرح رب المال کوئی کام بھی نہیں کرے گا، بلکہ کا م صرف مضارب ہی کرے گا، اگر رب المال پر بھی کام کی شرط لگائی گئی تو مضاربت فاسدہو جائے گی۔
(4) عقدِ مضاربت میں منافع کی تقسیم حقیقی نفع کے تناسب سے طے کی جانی ضروری ہے، اگر کسی ایک کے لیے معین رقم یا سرمایہ کے تناسب سے پہلے سے نفع طے کرلیا (یعنی کل سرمایہ کا اتنا فیصد ملے گا) تو مضاربت جائز نہیں ہوگی۔
(5) مضارب کو صرف حاصل شدہ نفع میں سے ہی حصہ ملے گا، اصل سرمایہ میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتا۔
(6) اگر مضارب کے لیے اصل سرمایہ میں سے کچھ مشروط کیا گیا تو مضاربت فاسد ہو جائے گی۔
(7) اگر نقصان ہوگیا تواس کو پہلے حاصل شدہ نفع سے پورا کیا جائے گا، اگر اس سے بڑھ گیا تو وہ رب المال کے ذمہ ہوگا اور اصل سرمایہ سے پورا کیا جائے گا، مضارب کو نقصان کا ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں، بلکہ نقصان کی صورت میں سرمایہ کار نقصان برداشت کرے گا اور مضارب کی محنت رائیگاں جائے گی، مضارب امین کی حیثیت سے کام کرے گا۔
(8 ) مضاربہ میں سرمایہ اور کاروبار حلال ہو، معاملہ میں کوئی شرطِ فاسد نہ ہو۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107200037(دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
شیعہ فقہا کے نزدیک مضاربہ کے احکام
۱ - اصطلاحی تعریف
فقہاء کی اصطلاح میں"مضاربہ" ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے تحت ایک شخص دوسرے کے سرمائے سے تجارت کرتا ہے اور حاصل شدہ منافع کو آپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
امام خمینیؒ: اپنی کتاب *تحریر الوسیلہ* میں اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
"و تسمّی قِراضاً، و هی عقد واقع بین شخصین علی ان یکون رأس المال فی التجارة من احدهما و العمل من الآخر، و لو حصل ربح یکون بینهما. و لو جعل تمام الربح للمالک یقال له: البضاعة"(تحریر الوسیلة، ج ۱، ص ۵۶۷)؛"اور اسے 'قِراض' بھی کہا جاتا ہے، اور یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو دو افراد کے درمیان طے پاتا ہے، جس میں سرمایہ ایک کا ہوتا ہے اور کام دوسرا کرتا ہے، اور اگر منافع حاصل ہو تو وہ دونوں کے درمیان تقسیم ہوتا ہے۔ اگر پورا منافع مالک کے لیے مقرر کیا جائے تو اسے 'بضاعہ' کہا جاتا ہے۔"
**مضاربہ کے بنیادی احکام اور شرائط**
مضاربہ کے کئی احکام اور شرائط ہیں جو فقہی کتب میں تفصیل سے مذکور ہیں۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- **ہر چیز کو مضاربہ میں سرمایہ نہیں بنایا جا سکتا۔** سرمایہ وہی ہوگا جو تجارت میں استعمال ہوسکے، جیسے **سونے اور چاندی کے سکے (درہم و دینار) یا ملک کی رائج کرنسی۔**
- **سرمائے کی مقدار واضح ہونی چاہیے۔
- **منافع کی تقسیم کے دو بنیادی اصول:
1۔ ہر فریق کا حصہ متعین ہونا چاہیے۔
2۔حصے کی تعیین تناسب (فیصد) میں ہونی چاہیے، جیسے نصف یا دو تہائی وغیرہ۔
-عامل (کام کرنے والا) سرمائے سے صرف خرید و فروخت کرے گا، اسے زراعت، تعمیرات یا دیگر کاروباری سرگرمیوں میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔
**امام خمینیؒ مزید لکھتے ہیں:
شرط ہے کہ نفع حاصل کرنے کا طریقہ تجارت ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کا سرمایہ لے کر کھیتی باڑی کرے یا کسی ہنر مند کو دے تاکہ وہ اپنے ہنر میں اسے استعمال کرے اور نفع میں شراکت ہو، تو یہ درست نہیں اور مضاربہ نہیں کہلائے گا۔" (*حریر الوسیلة، ج ۱، ص ۵۶۱۔)
۲ - فریقین کے لیے شرائط:
مضاربہ کے فریقین (مالک اور عامل) کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:
- دونوں کا بالغ، عاقل اور مختار ہونا ضروری ہے۔**
مالک کا مالی تصرفات میں شرعاً مجاز ہونا لازمی ہے، یعنی وہ دیوالیہ نہ ہو۔**
- عامل میں تجارت کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔**
فقہاء نے بیان کیا ہے کہ:
مضاربہ کے دونوں فریقوں کے لیے بلوغ، عقل اور اختیار ضروری ہے؛ جبکہ مالک کے لیے شرط ہے کہ وہ دیوالیہ نہ ہو اور عامل کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرمایہ کے ساتھ تجارت کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔" العروة الوثقی، ج ۵، ص ۱۵۶)
۳ - مضاربہ کے احکام**
1.مضاربہ ایک دوطرفہ معاہدہ ہے، جو ایجاب و قبول کے ذریعے طے پاتا ہے۔
2۔یہ معاہدہ دونوں فریقوں کے لیے جائز (غیر لازم) ہے، یعنی وہ جب چاہیں اسے ختم کر سکتے ہیں۔
3۔ اگر نقصان ہو اور عامل کی کوتاہی نہ ہو تو نقصان مالک برداشت کرے گا، تاہم بعد میں اگر منافع حاصل ہو تو سب سے پہلے نقصان کی تلافی کی جائے گی، اس کے بعد بچا ہوا منافع تقسیم ہوگا۔
4۔ اگر معاہدے میں طے کیا گیا ہو کہ عامل ہر ماہ مالک کو منافع سے کوئی مخصوص رقم بطور پیشگی ادا کرے، اور آخر میں حساب کر کے تصفیہ کیا جائے، تو یہ جائز ہے۔**
5. اگر بعد میں معلوم ہو کہ مضاربہ باطل تھا، تو حاصل شدہ تمام منافع مالک کا ہوگا، جبکہ عامل کو اس کی محنت کی اجرت دی جائے گی۔** الفقه (کتاب المضاربه)، ص ۷-۸)
- مزید مطالعے کے لیے مصادر
1.آیت اللہ مشکینی، علی؛ مصطلحات الفقه، الهادی، دفتر نشر الهادی، ۱۳۷۷ هـ، ص ۴۹۶
2.سید محمد کاظم طباطبائی یزدی؛ العروة الوثقی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، ۱۴۲۰ هـ، ج ۵، ص ۱۵۶، ۱۵۰-۱۴۷، ۲۳۲، ۱۹۹
3.امام خمینی، روح اللہ؛ تحریر الوسیله، قم، مؤسسة النشر الاسلامی،۱۴۲۰ هـ، ج ۱، ص ۵۶۷، ۵۶۱، ۵۵۹، ۵۵۸
4. سید محمد حسینی شیرازی؛ الفقه (کتاب المضاربه)، قم، مطبعة سیدالشهداء (ع)، ص ۵-۸
5. توضیح المسائل مراجع؛ سید محمد حسن بنی ہاشمی خمینی، ۱۳۷۹، ج ۲، ص ۲۶۳ ۔

20/06/2023

14/06/2023

#

02/06/2023

Hiskytravel skardu/ explore the north
Fallow/Hiskytravel skardu

28/05/2023
06/05/2023

Hiskytravel skardu
Fallow/ Hiskytravel skardu

04/05/2023

Hiskytravel skardu explore the north
Fallow/Hiskytravel skardu

#

Address

Skardu
16100

Telephone

+923556060538

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when سرفہ رنگاہ اپڈیٹ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to سرفہ رنگاہ اپڈیٹ:

Share