08/04/2024
*ششپیے*
سر زمین بنوں مختلف قسم کی خوبصورت اور دلچسپ روایات سے بھری پڑی ہے ۔ ان میں سے ایک خوبصورت روایت 'ششپیے یا شاش- پیے ' کی بھی ہے۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں عید الفطر سے پہلے گاؤں کے وہ لڑکے لڑکیاں جن پر روزے فرض نہیں ہوتے ،کسی جگہ جمع ہوکر ششپیے کے لیے صلاح مشورہ کرتے ہیں ۔ یہ لڑکیاں لڑکے گھر گھر جاکر لکڑیاں اور دوسری جلنی والی اشیاء جمع کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ عام زمینوں اور لوگوں کے کھیتوں میں موجود 'غنے' یعنی کانٹے دار گھاس پھوس ، درختوں کے شاخ وغیرہ لیکر کسی میدان میں یا کھلی جگہ میں یا پھر اپنے مشترکہ بیٹھک (چاوک) میں رکھ لیتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ گھروں کے دیواروں سے لمبے ڈانڈے سے اپلے (گوبر کے) گراکر چوری کرتے ہیں ۔
یہ سارا ایندھن ایک جگہ جمع کرکے گول دائرے میں ایسے انداز میں رکھا جاتا ہے کہ اس کی اونچائی کافی زیادہ ہو اور آگ دور تک دیکھائی دے۔
عید الفطر سے بالکل ایک رات پہلے یعنی چاند رات کو نماز مغرب کے بعد دور دور سے لوگ جمع ہو جاتے ہیں جن میں بڑی عمر کے لوگ بھی ہوتے ہیں ، نعرے بازی کرتے ہیں ،شور کرتے ہیں ،موج مستیاں ہوتی ہیں اور جیسے ہی کنفرم ہو جاتا ہے کہ کل عید ہے ،اس ایندھن کو آگ لگائی جاتی ہے۔ اس دوران سارے لڑکے اور لڑکیاں بلند آواز میں یہ پشتو گانا(سندرہ)گاتی ہیں:
ششپیے طالیبیے
تو وے سیک بلاوی
تو وے جینا بلاوی
کا جینا مینا نا وی
ژنڑی گڑنگ سنڑاوی
یہ دراصل عید الفطر کی خوشی میں ہوتا ہے ۔اس رات ،اس دن ،اس ایندھن اور اس آگ کو ششپیے کہا جاتا ہے۔
تاریخی لحاظ سے یہ بنوں کے پختونوں کی ایک بہت پرانی روایت ہے اور تقریباً 2000 سال پہلے اس کا آغاز ہوا ۔ہر تہوار اور خوشی سے پہلے یہ آگ جلائی جاتی تھی ۔ ان دنوں اسے 'جشن سدہ' کہا جاتا تھا۔ پرانے زمانے میں یہاں کے پختون جنگ پر جانے سے پہلے آگ لگاتے تھے اور اس کے اردگرد روایتی رقص یعنی اتن کرتے تھے ۔
آج کل یہ روایت زوال پزیر ہے ۔