Jampur Explorer

Jampur Explorer Jampur Explorer explores the hidden and forgotten treasures of history, culture, rivers, mountains, landscapes and nature. Come and join us.

As we believe in "Travel, learn and keep going."

جام پور, پنجاب پاکستان میں محلہ کمہاراں اور حکیم ٹھٹھار والی گلی مشہور و معروف ہیں. یہاں کی پرانی عمارات اپنے آپ میں ایک...
13/01/2025

جام پور, پنجاب پاکستان میں محلہ کمہاراں اور حکیم ٹھٹھار والی گلی مشہور و معروف ہیں. یہاں کی پرانی عمارات اپنے آپ میں ایک تاریخ ہیں. سینکڑوں ہزاروں داستانیں اپنے اندر سموۓ یہ در و دیوار موجود زمانے میں شکست و ریخت کا شکار ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاریخی ورثہ کو محفوظ بنایا جاۓ. ان قدیم شان دار عمارات کے مکینوں سے گزارش ہے کہ جتنا ہو سکتے اپنے اس تاریخی ورثے کو محفوظ رکھیں.

Jampur, Punjab, Pakistan is famous for its Mohallah Kumharan and Hakeem Thathar Wali Gali. The old buildings here are a history in themselves. These walls, which have thousands of stories embedded in them, are now suffering from decay and ruin. There is a need to preserve this historical heritage. The residents of these ancient buildings are requested to preserve this historical heritage as much as possible.

पंजाब, पाकिस्तान का जामपुर अपने मोहल्ला कुम्हारान और हकीम ठठ्ठर वाली गली के लिए प्रसिद्ध है। यहाँ की पुरानी इमारतें स्वयं में एक इतिहास हैं। इन दीवारों, जिनमें हजारों कहानियाँ समाहित हैं, अब क्षय और विनाश का शिकार हो रही हैं। इस ऐतिहासिक विरासत को संरक्षित करने की आवश्यकता है। इन प्राचीन इमारतों के निवासियों से अनुरोध है कि वे अपने इस ऐतिहासिक विरासत को संभव के रूप में संरक्षित रखें।

جام پور (پنجاب, پاکستان) میں موجود یہ "حویلی نواب اکبر وٹو" ہے. ہم نے چونکہ اس روز پرانے محلوں کا اچانک دورہ کیا تھا تو ...
05/01/2025

جام پور (پنجاب, پاکستان) میں موجود یہ "حویلی نواب اکبر وٹو" ہے. ہم نے چونکہ اس روز پرانے محلوں کا اچانک دورہ کیا تھا تو اس حویلی کے اندر کی عکاسی نہ ہو سکی کیوں کہ کافی عرصہ سے یہ بند ہے. بعدازاں معلوم ہوا کہ اس حویلی کا اندرونی حصہ آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے. چنانچہ ہم نے پھر کسی روز آ کر اس کے اندرونی حصے کی عکس بندی کا فیصلہ کیا. تقسیمِ ہند کے بعد یہ عمارت ان چند تعمیرات میں شمار کی جاتی ہے جو اپنے اندر تاریخی یادیں چھپاۓ ہوۓ ہے.

This is the "Haveli of Nawab Akbar Khan Watto" located in Jampur, Punjab, Pakistan. Since we made a sudden visit to the old neighborhoods that day, we could not photograph the interior of this haveli as it has been closed for a long time. Later, it was discovered that the interior of this haveli still exists in its original state. Therefore, we decided to revisit and photograph its interior another day. After the partition of India, this building is counted among the few structures that hold historical memories within.

यह पंजाब, पाकिस्तान के जम्पुर में स्थित "नवाब अकबर खान वट्टो की हवेली" है। चूंकि हमने उस दिन पुराने इलाकों का अचानक दौरा किया था, इसलिए हम इस हवेली के अंदर की तस्वीरें नहीं ले सके क्योंकि यह लंबे समय से बंद है। बाद में पता चला कि इस हवेली का आंतरिक हिस्सा अभी भी अपनी मूल स्थिति में मौजूद है। इसलिए, हमने फिर से किसी दिन इसके आंतरिक हिस्से की फोटोग्राफी करने का फैसला किया। भारत के विभाजन के बाद, यह इमारत उन कुछ इमारतों में गिनी जाती है जो अपने अंदर ऐतिहासिक यादें समेटे हुए हैं।

Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard! Shahjhan FidaGhulam YasinMabob ShahMuhammad Ismail Sajid ...
29/12/2024

Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard!
Shahjhan Fida
Ghulam Yasin
Mabob Shah
Muhammad Ismail
Sajid Lashari
Muhammad Adnan Taseer
Muhammad Nadeem Qureshi
Milo Ali
Irfan Majeed
Muhammad Shahid Iqbal
Muhammed Ihsan Nawaz Mahesar
Muhammad Irfan Gudara
Muhammad Asad Bilal

جام پور میں موجود "لاشاری محلہ" تاریخی اعتبار سے کافی اہمیت رکھتا ہے. معلوماتی دورہ کے روز وقت کی قلت کے سبب اندرون محلہ...
28/12/2024

جام پور میں موجود "لاشاری محلہ" تاریخی اعتبار سے کافی اہمیت رکھتا ہے. معلوماتی دورہ کے روز وقت کی قلت کے سبب اندرون محلہ کی متعدد پرانی عمارات کی عکاسی نہ ہو سکی. ذیل میں دکھائی گئی یہ کچھ تصاویر مختصر دورہ کے دوران بنائی گئی ہیں. اگر ان کی تعمیر کا اندازہ لگایا جاۓ تو یہ عمارات 150 سے 200 سال تک پرانی ہو سکتی ہیں. اگر کوئی دوست معلومات رکھتا ہو تو براہ مہربانی کمنٹ کر کے معلومات میں اضافہ فرما دے. شکریہ

जम्पुर में स्थित "लाशारी मोहल्ला" ऐतिहासिक दृष्टिकोण से बहुत महत्वपूर्ण है। जानकारी दौरे के दिन समय की कमी के कारण मोहल्ले के अंदर कई पुरानी इमारतों की तस्वीरें नहीं ली जा सकीं। नीचे दिखाई गई ये कुछ तस्वीरें संक्षिप्त दौरे के दौरान बनाई गई हैं। यदि उनके निर्माण का अनुमान लगाया जाए तो ये इमारतें 150 से 200 साल पुरानी हो सकती हैं। यदि कोई मित्र जानकारी रखता है तो कृपया टिप्पणी करें और जानकारी में वृद्धि करें। धन्यवाद।

The "Lashari Mohallah" located in Jampur holds significant importance historically. Due to the shortage of time on the day of the information tour, many old buildings inside the mohallah could not be photographed. The few pictures shown below were taken during a brief visit. If their construction is estimated, these buildings can be 150 to 200 years old. If any friend has information, please comment and add to the information. Thank you.

جام پور میں موجود یہ جگہ "ٹِبہ ویہڑا" کے نام سے مشہور ہے. یہاں شیخ برادری کے لوگ رہائش پذیر ہیں جس کی وجہ سے اسے محلہ شی...
22/12/2024

جام پور میں موجود یہ جگہ "ٹِبہ ویہڑا" کے نام سے مشہور ہے. یہاں شیخ برادری کے لوگ رہائش پذیر ہیں جس کی وجہ سے اسے محلہ شیخاں بھی کہا جاتا ہے. تاریخی اعتبار سے یہ "ٹِبہ ویہڑا" کافی اہمیت کا حامل ہے. تقسیمِ ہند سے پہلے جام پور کا یہ محلہ فن تعمیر کی عمدہ مثال رہا. مگر زمانے کی شکست و ریخت کے سبب اس کے تاریخی نشانات مٹتے چلے جا رہے ہیں. آیندہ چند سالوں میں یہ نشانات شاید ہمیں صرف تصاویر کی صورت میں ہی ملیں...

This place located in Jampur is famous by the name of "Tibba Vehra". People of Sheikh community reside here due to which it is also called Mohallah Sheikhan. Historically, this "Tibba Vehra" holds significant importance. Before the partition of India, this locality of Jampur was an exemplary example of architecture. But due to the ravages of time, its historical signs are being erased. In the coming years, these signs will perhaps only be available to us in the form of pictures.

जम्पुर में स्थित यह स्थान "टिब्बा वेहड़ा" के नाम से प्रसिद्ध है। शेख समुदाय के लोग यहाँ निवास करते हैं, जिसके कारण इसे मोहल्ला शेखां भी कहा जाता है। ऐतिहासिक दृष्टिकोण से, यह "टिब्बा वेहड़ा" काफी महत्व रखता है। भारत के विभाजन से पहले, जम्पुर का यह इलाका वास्तुकला का एक उत्कृष्ट उदाहरण था। लेकिन समय के प्रभाव के कारण, इसके ऐतिहासिक चिह्न मिटते जा रहे हैं। आने वाले वर्षों में, ये चिह्न शायद केवल तस्वीरों के रूप में ही हमें मिलेंगे।

کستوری محلہ جام پورگزرے زمانوں کی داستانیں سمیٹے ہوۓ یہ عمارات...اگر ان میں جان ہوتی تو یہ سوچ رہی ہوتیں کہ کیا ہمارے مک...
15/12/2024

کستوری محلہ جام پور
گزرے زمانوں کی داستانیں سمیٹے ہوۓ یہ عمارات...
اگر ان میں جان ہوتی تو یہ سوچ رہی ہوتیں کہ کیا ہمارے مکین بھی ہمیں یاد کرتے ہوں گے؟

कस्तूरी मोहल्ला, जामपुर
बीते ज़माने की कहानियां समेटे हुए ये इमारतें...
अगर इनमें जान होती, तो ये सोच रही होतीं कि क्या हमारे रहने वाले भी हमें याद करते होंगे?

Kasturi Mohalla, Jampur
These buildings, holding stories of bygone eras...
If they had life, they would be wondering, do our residents also remember us?

پہاڑوں کا عالمی دن International Mountain Day ماڑی میں کٹی پہاڑی کی دریافت 😁یہ 2013ء کی بات ہے جب ماڑی کوہِ سلیمان میں ی...
11/12/2024

پہاڑوں کا عالمی دن International Mountain Day
ماڑی میں کٹی پہاڑی کی دریافت 😁
یہ 2013ء کی بات ہے جب ماڑی کوہِ سلیمان میں یہ میرا دوسرا اور جناب حسن مجتبیٰ بخاری کا پہلا وزٹ تھا. فطرتی مناظر کی تلاش میں ہم دونوں میرے CD 70 2008 Model پر علی الصبح نکلنے والے تھے مگر تیاری کرتے کرتے دن کے 1 بج گئے 🙄. جام پور سے براستہ داجل ہم جب لُنڈی سیدان پہنچے تو وہاں رودکوہی (مقامی زبان میں جسے "نئیں" کہا جاتا ہے) نے ہمارا استقبال کیا. ان دنوں وہاں پل نہیں تھا اور مسافر گھنٹوں رود کوہی کے گزر جانے کا انتظار کیا کرتے تھے. ہم دیکھ سکتے تھے کہ دوسرے کنارے پر کافی لوگ موجود تھے جو پانی کے گزر جانے کا کافی دیر سے انتظار کر رہے تھے. چنانچہ ہم بھی انتظار کرنے لگے.
اتنے میں ایک نوجوان جو کہ بارڈر ملٹری پولیس کا ملازم تھا, وہاں پہنچا. ہماری علیک سلیک ہوئی اور تعارف کرانے پر معلوم ہوا کہ وہ نوجوان فورٹ منرو اپنی ڈیوٹی کر کے واپس آ رہا تھا اور اسے لعل گڑھ جانا تھا. اس نے کہا کہ اب رود کوہی کا پانی کافی کم ہو چکا ہے لہٰذا ہم اب اس کو پار کریں گے.
پہلے اس نوجوان نے ہمارا موٹرسائیکل رود کوہی میں اتارا. پانی اتنا تھا کہ ہمارے موٹر سائیکل کا ہینڈل اور ٹینکی ہی پانی سے باہر تھی. رودکوہی پار کرنے میں ہمیں 20 منٹ لگے. ہمیں دوسرے کنارے پر چھوڑ کر وہ اپنا بائیک جو کہ ہونڈا 125 تھا, لینے کے لیے دوسرے کنارے چلا گیا. اب چونکہ موٹرسائیکل میں پانی بھر چکا تھا تو ہم نے اس نوجوان کے آنے تک اسے سٹارٹ کرنے کی بھرپور کوششِ ناکام کی.
چند منٹوں بعد نوجوان آن پہنچا اور ہمارا بائیک سٹارٹ کرنے میں ہماری مدد کی. اس کے بعد وہ ہمیں لعل گڑھ اپنی بیٹھک پر لے گیا. ہمارے ہاتھ, پیر اور کپڑے پہاڑی پانی اور مٹی سے خراب ہو چکے تھے تو وہ پانی کے لوٹے لے آیا اور خود ہمارے ہاتھ پاؤں دھلوانے لگا. ہم نے بارہا اسے کہا کہ ہم خود دھو لیں گے مگر اس نے کہا کہ ہمارے ہاں مہمان نوازی ایسے کی جاتی ہے. ہم مہمان کا احترام کرتے ہیں. اس نوجوان نے ہمیں کھانے کی دعوت دی مگر ہم نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ ان سے اجازت لی اور ماڑی کی طرف روانہ ہو لیے.
اب چونکہ شام ہو رہی تھی تو ماڑی ٹاپ پر پہنچ کر ہم نے ہوٹل بُک کیا اور آرام کرنے لگے. یوں رات گزر گئی 😁
صبح جاگ کر ہم ماڑی کو explore کرنے کے لیے بائک ٹاپ پر کھڑی کی اور پیدل نکل پڑے. ہم زیارت پہنچے جہاں پانی کا چشمہ دیکھ کر مزہ آ گیا. وہاں ہمیں ایک نوجوان ملا جو زیارت سے آگے جا رہا تھا. اس سے بات ہوئی تو اس نے ہمیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا. دوپہر کا وقت تھا. ہم اس کی بیٹھک میں پہنچے جو پتھروں سے بنی تھی. اس کے اندر AC جیسا ماحول تھا. انھوں نے ہماری تواضع دیسی مرغی سے کی. گفت و شنید کے دوران ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں آج تک کوئی سیاح نہ پہنچا ہو. اس نوجوان نے بتایا کہ ایک جگہ ہے. جسے شاید جِر ماڑی کہا جاتا ہے. مجھے پوری طرح سے یاد نہیں کہ اس نوجوان نے یہی نام لیا تھا... 🙄
خیر ہم اس جگہ کے لیے روانہ ہو گئے اور آدھا گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد وہ ہمیں ایسی جگہ لے گیا جو واقعی میں untouch تھی. وہاں کے مناظر نے ہمیں حیران کر دیا. اس دن ہمارے پاس موجود کیمرہ اور موبائل کی بیٹری ختم ہو گئی تھی. اوپر موجود یہ وہ آخری تصاویر ہیں جو ہم نے موبائل سے بنائی تھیں.
ہم نے وہاں کافی وقت گزارا اور سہہ پہر کے وقت واپس آ گئے. اس پہاڑی کے خدوخال کو دیکھتے ہوۓ میں نے اس کا نام "کٹی پہاڑی" رکھا جو آج رائج ہے. جناب حسن مجتبیٰ بخاری اور میرے لیے یہ ایک عظیم دریافت تھی.
عصر کے وقت خوب بارش ہوئی اور مقامی لوگوں کی نصیحت کے مطابق ہمیں اسی وقت وہاں سے نیچے آنا تھا ورنہ کھرگلی والی رودکوہی میں پانی آ جاتا اور ہمیں 2 سے 3 گھنثے وہاں انتظار کرنا پڑتا اور راستے میں رات ہو جاتی.
ان دنوں ایک بہت ہی نیک ہستی ماڑی میں موجود تھی, جناب عبدالصمد مہاروی رح. ہم نے ان سے ملاقات کا شرف حاصل کیا, دعا کرائی اور واپسی کے لیے روانہ ہو لیے.
واپسی پر کھرگلی رودکوہی نے ہمیں روک لیا اور ہمیں ایک گھنٹے سے زیادہ انتظار کرنا پڑا. اب کیوں کہ رات ہو رہی تھی تو ہم نے اپنی بائک رودکوہی میں ڈال دی اور کھینچ کر دوسرے کنارے لے گئے. نتیجہ یہ نکلا کہ انجن اور سائلنسر میں پانی بھر جانے کہ وجہ سے بائک سٹارٹ نہ ہو سکا اور ہم ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے.
اتنے میں دو نوجوان وہاں پہنچے. ہماری حالت دیکھی. ان میں سے ایک نے کہا کہ ہاتھ ملاؤ, میں مکینک ہوں 😁. اس نے 5 منٹوں بائک سٹارٹ کر دی. ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور واپسی کے لیے روانہ ہوۓ.
واپسی پر اسی لُنڈی سیدان والی رود کوہی میں سے گزرے مگر اب پانی کافی کم ہو چکا تھا. پانی سے تو بچ گئے مگر راستہ بھول گئے اور جناب امیر حمزہ سلطان والے راستے سے جانے کی بجاۓ چوکی ریخ والا راستہ لے لیے. جب ریت اور ٹوٹا راستہ شروع ہوا تو بعد میں سمجھ آیا کہ یہ تو ہڑنڈ والے گھٹ ہیں. 🙄😁🥴 یہ سوچ کر ہماری تو بولتی بند ہو گئی. مکمل ویران راستہ. میں نے نہ ریت کے ٹیلے دیکھے نہ گہرے کھڈے... دوسرے گئیر میں گاڑی اتنا بھگائی کہ داجل میں نہر والی پل پر آ کر ہی دم لیا. اللّہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور جام پور پہنچے. یہ ہمارا ایک انتہائی یادگار سفر تھا.
تحریر: محمد شاہد اقبال (ایم ایس اقبال) Muhammad Shahid Iqbal

पर्वतों का अंतरराष्ट्रीय दिवस

मारी में "कटी पहाड़ी" की खोज 😁

यह 2013 की बात है जब मैंने मारी कोह-ए-सुलेमान की दूसरी यात्रा की और जनाब हसन मुज्तबा बुखारी के साथ उनकी पहली यात्रा थी। प्राकृतिक नजारों की खोज में, हमने सुबह जल्दी अपनी 2008 मॉडल की सीडी 70 मोटरसाइकिल पर निकलने का प्लान किया था, लेकिन तैयारी करते-करते दोपहर के 1 बज गए 🙄। जामपुर से दाजल के रास्ते जब हम लुंडी सैयदान पहुंचे, तो वहां एक मौसमी नदी (स्थानीय भाषा में जिसे "नैं" कहा जाता है) ने हमारा स्वागत किया। उस समय वहां पुल नहीं था, और यात्री घंटों तक पानी के कम होने का इंतजार किया करते थे। हमने देखा कि दूसरी तरफ काफी लोग खड़े थे जो लंबे समय से इंतजार कर रहे थे। इसलिए हमने भी इंतजार करना शुरू कर दिया।

उसी समय, एक युवक वहां पहुंचा, जो बॉर्डर मिलिट्री पुलिस में काम करता था। अभिवादन के बाद परिचय हुआ, और हमें पता चला कि वह फोर्ट मुनरो में अपनी ड्यूटी पूरी करके लालगढ़ लौट रहा था। उसने कहा कि अब नदी का पानी काफी कम हो चुका है, और अब इसे पार किया जा सकता है।

पहले उस युवक ने हमारी मोटरसाइकिल को नदी में उतारा। पानी इतना था कि सिर्फ हैंडल और टंकी ही पानी से बाहर थी। नदी को पार करने में हमें 20 मिनट लग गए। हमें दूसरी तरफ छोड़कर वह अपनी होंडा 125 मोटरसाइकिल लाने के लिए वापस गया। चूंकि हमारी मोटरसाइकिल में पानी भर चुका था, हमने उसे चालू करने की कोशिश की, लेकिन सफलता नहीं मिली।

कुछ ही मिनटों बाद वह युवक वापस आया और हमारी मोटरसाइकिल स्टार्ट करने में मदद की। इसके बाद वह हमें लालगढ़ अपने बैठने की जगह पर ले गया। पहाड़ी पानी और कीचड़ के कारण हमारे हाथ, पैर और कपड़े खराब हो चुके थे, इसलिए वह पानी का लोटा लेकर आया और खुद हमारे हाथ-पैर धोने लगा। हमने कई बार कहा कि हम खुद धो लेंगे, लेकिन उसने कहा कि हमारे यहां मेहमानों का इसी तरह सम्मान किया जाता है। उसने हमें खाने का निमंत्रण भी दिया, लेकिन हमने धन्यवाद कहकर उससे विदा ली और मारी की ओर रवाना हो गए।

अब शाम हो रही थी, तो मारी टॉप पहुंचकर हमने होटल बुक किया और आराम किया।

अगली सुबह, हमने अपनी मोटरसाइकिल टॉप पर पार्क की और मारी को पैदल एक्सप्लोर करने निकल पड़े। हम ज़ियारत पहुंचे, जहां पानी के झरने को देखकर मजा आ गया। वहां हमें एक युवक मिला जो ज़ियारत से आगे जा रहा था। बातचीत के बाद उसने हमें अपने साथ चलने को कहा। दोपहर का समय था। हम उसके पत्थरों से बने बैठने के स्थान पर पहुंचे, जो अंदर से एसी जैसा ठंडा था। उन्होंने हमारी मेहमाननवाजी देसी मुर्गी से की।

बातचीत के दौरान, हमने पूछा कि क्या यहां कोई ऐसी जगह है जहां अब तक कोई सैलानी न पहुंचा हो। उसने बताया कि एक जगह है, जिसे शायद "जिर मारी" कहा जाता है। मुझे पूरा यकीन नहीं कि उसने यही नाम लिया था... 🙄।

खैर, हम उस जगह की ओर चल दिए और आधे घंटे की पैदल यात्रा के बाद वह हमें ऐसी जगह ले गया, जो वास्तव में अनछुई थी। वहां के दृश्य देखकर हम हैरान रह गए। उस दिन हमारे पास जो कैमरा और मोबाइल था, उसकी बैटरी खत्म हो चुकी थी। ऊपर जो तस्वीरें दिख रही हैं, वे हमारी आखिरी ली गई तस्वीरें थीं।

हमने वहां काफी समय बिताया और दोपहर बाद वापस आ गए। उस पहाड़ी की बनावट को देखकर मैंने उसका नाम "कटी पहाड़ी" रखा, जो आज प्रचलित है। जनाब हसन मुज्तबा बुखारी और मेरे लिए यह एक अद्भुत खोज थी।

शाम के समय तेज बारिश होने लगी। स्थानीय लोगों की सलाह पर, हमने तुरंत वहां से नीचे उतरने का फैसला किया। यदि हम और रुकते, तो खर्गली नदी में पानी आ जाता, और हमें 2-3 घंटे इंतजार करना पड़ता, और रास्ते में रात हो जाती।

उन दिनों, मारी में एक महान धार्मिक हस्ती, जनाब अब्दुस्समद महारवी (रह.) मौजूद थे। हमने उनसे मिलने का सम्मान प्राप्त किया, उनसे दुआ करवाई, और वापसी के लिए निकल पड़े।

वापसी में, खर्गली नदी ने फिर से हमारा रास्ता रोक लिया, और हमें एक घंटे से अधिक इंतजार करना पड़ा। रात होने के कारण, हमने मोटरसाइकिल को पानी में डाल दिया और खींचकर दूसरी तरफ ले गए। इसका परिणाम यह हुआ कि इंजन और साइलेंसर में पानी भर गया, और बाइक स्टार्ट नहीं हो पाई।

तभी दो युवक वहां पहुंचे। हमारी हालत देखकर उनमें से एक ने कहा, "हाथ मिलाओ, मैं मेकैनिक हूं 😁।" उसने 5 मिनट में बाइक स्टार्ट कर दी। हमने उनका धन्यवाद किया और वापस चल दिए।

वापसी में, जब हम लुंडी सैयदान नदी से गुजरे, तो पानी काफी कम हो चुका था। लेकिन इस बार, हम रास्ता भूल गए और जनाब अमीर हमजा सुल्तान के रास्ते की बजाय चौकी रेख वाले रास्ते पर चले गए। जब रास्ते में रेत और टूटे हुए रास्ते शुरू हुए, तो समझ आया कि यह तो हरंड वाला इलाका है 🙄😁🥴। यह सोचकर हमारी बोलती बंद हो गई। पूरा रास्ता वीरान था। मैंने न तो रेत के टीलों को देखा और न गहरे गड्ढों को... हमने गाड़ी को दूसरे गियर में दौड़ाया और आखिरकार दाजल में नहर वाले पुल पर जाकर दम लिया। अल्लाह का शुक्र अदा किया और जामपुर पहुंचे।

यह हमारी जिंदगी की सबसे यादगार यात्रा थी।

लेखक: मुहम्मद शाहिद इकबाल (एम.एस. इकबाल)

Address

Jampur
33000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Jampur Explorer posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share