Hassnain Bin Saqib

Hassnain Bin Saqib Awara Shikaari

‏ایک سیاح کو مری کی روڈ پرڈھکن لگی خالی بوتل ملی سیاح حیران ہوا کہ خالی بوتل اور وہ بھی ڈھکن بند اُس نے فوراً بوتل کا ڈھ...
22/05/2025

‏ایک سیاح کو مری کی روڈ پرڈھکن لگی خالی بوتل ملی سیاح حیران ہوا کہ خالی بوتل اور وہ بھی ڈھکن بند اُس نے فوراً بوتل کا ڈھکن کھولا تو بہت سارا دھواں نکلا کہ کچھ بھی نظر نا آیا پھر آواز آئی
ہو ہو ہو ہاہاہا
سیاح نے دیکھا تو سہم گیا کہ ایک جن اسکے سامنے کھڑا تھا. سیاح نے بوتل کے جن کو ‏آزاد کرنے والی بہت سی کہانیاں پڑھ رکھی تھی وہ سمجھ گیا کہ یہ میں نے جن کو آزاد کردیا ہے
اب سیاح کو حوصلہ ہوا اور بولا" جن بابا میں نے آپکو آزاد کیا ہے اب تم مجھے مری کی مفت سیر کراؤ
جن نے ھو ھو ھا ھا بند کی اور سیاح کو گھورنے لگا پھر بولا
اوئے نادان سیاح! میں مری کا جن ہوں جہاں ‏بندر کو کیلا کھلاؤ تو کوئی نہ کوئی مری والا بھاگا ہوا آتا ہے کہ یہ ہمارے علاقے کا بندر ہے تم نے اسکو کیلا کھلایا اب مجھے پیسے دو
اے ناسمجھ سیاح! تو مجھ سے مفت سیر کی فرمائش کرتا ہے تجھے کیا پتہ ان مری والوں کے ہاتھوں میں جن بھی بے بس ہیں۔ مجھےمری کے ہی ایک بندے نے قید رکھا ہوا ہے وہ مجھے روز بوتل میں بند کرکے سڑک کنارےپھینک دیتا ہے اور پہاڑی کے پیچھے بیٹھ جاتا ہے پھر کوئی بھولا سیاح ڈھکن کھولتا ہےتو میں باہر نکل آتا ہوں تب وہ پہاڑیا بھاگتا ہوا آتا ہےاور سیاح سے کہتا ہے
توں مہاڑا جن بوتل اچوں کڈی چھوڑیا کڈ ہزار روپیہ.

سیاحوں کیلئے بڑی خوشخبری 17اپریل بروز جمعرات شام تک ناران ہر قسم کی ٹریفک کیلئے کھول دیا جائے گا,گوریا گلیشیر پر صرف دو ...
16/04/2025

سیاحوں کیلئے بڑی خوشخبری
17اپریل بروز جمعرات شام تک ناران ہر قسم کی ٹریفک کیلئے کھول دیا جائے گا,
گوریا گلیشیر پر صرف دو دن کاکام باقی ہے

مسکرائیے آپ جمعہ المبارک کو ناران میں ہونگے..

کچھ دوستوں کی فرمائش کے مطابق شِمشال ویلی کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔اسلام آباد سے شِمشال ویلی کا راست...
11/04/2025

کچھ دوستوں کی فرمائش کے مطابق شِمشال ویلی کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔

اسلام آباد سے شِمشال ویلی کا راستہ:

کل فاصلہ: تقریباً 730 کلومیٹر
کل وقت: تقریباً 20 سے 24 گھنٹے (موسم اور راستے کی حالت پر منحصر)
بہترین وقت سفر کے لیے: مئی سے ستمبر

مرحلہ وار راستہ:

1. اسلام آباد سے ناران یا مانسہرہ (خیبرپختونخوا)

راستہ: موٹر وے M1 یا شاہراہِ ریشم (Karakoram Highway)

فاصلہ: اسلام آباد سے ناران = 270 کلومیٹر (اگر بابو سر پاس کھلا ہو)

متبادل: اگر بابو سر پاس بند ہو (اکثر سردیوں میں)، تو مانسہرہ → بشام → داسو → چلاس کا راستہ اپنائیں۔

2. ناران/چلاس سے گلگت

اگر بابوسر پاس کھلا ہے تو ناران → بابوسر ٹاپ → چلاس → گلگت

اگر بند ہے تو بشام → کوہستان → چلاس → گلگت

فاصلہ: چلاس سے گلگت = تقریباً 130 کلومیٹر

3. گلگت سے ہنزہ (علی آباد/پسو)

راستہ: گلگت → نگر → علی آباد → پسو

فاصلہ: گلگت سے پسو = تقریباً 150 کلومیٹر

راستے میں دیدنی مقامات: راکاپوشی ویو پوائنٹ، عطا آباد جھیل، ہُسینی پل

4. پسو سے شِمشال گاؤں

راستہ: پسو سے 4x4 جیپ لے کر شِمشال ویلی روڈ

فاصلہ: تقریباً 50 کلومیٹر مگر انتہائی مشکل اور خطرناک راستہ

مدت: 3 سے 4 گھنٹے (صرف جیپ/لوکل ٹرانسپورٹ)

اہم معلومات:

شِمشال روڈ انتہائی تنگ اور خطرناک ہے، مقامی ڈرائیور ہی بہتر طور پر چلا سکتے ہیں۔

راستے میں موبائل سگنلز کمزور یا بالکل نہیں ہوتے۔

شِمشال ویلی میں محدود رہائش دستیاب ہے (ہوم اسٹے اور لوکل گیسٹ ہاؤسز)۔

سردیوں میں برفباری کے باعث راستے بند ہو سکتے ہیں۔

الحمدللہ کل سے ناران روڈ کو کھولنے کا با قاعدہ آغاز ہو رہا ہے  RADCکی ہیوی مشینری ناران  لمبی پٹی کے مقام پر  پہنچا دی گ...
10/04/2025

الحمدللہ کل سے ناران روڈ کو کھولنے کا با قاعدہ آغاز ہو رہا ہے RADCکی ہیوی مشینری ناران لمبی پٹی کے مقام پر پہنچا دی گئی ہے کام شروع

بابا جی کھیت میں بھینس کو جوت کر ہل چلا رہا تھا اور چھپر میں بیل صاحب آرام فرما رہے تھے  _ کسی سیانے کا گزر ہوا  _  اس ن...
05/04/2025

بابا جی کھیت میں بھینس کو جوت کر ہل چلا رہا تھا اور چھپر میں بیل صاحب آرام فرما رہے تھے _ کسی سیانے کا گزر ہوا _

اس نے بابا جی سے پوچھا :
" یہ کیا تماشا ہے ؟
تم نے بیل کو چھپر کے نیچے باندھا ہے اور بھینس کو ہل میں جوت رکھا ہے ! "

بابا جی نے کہا :
" یہ بی بی شہر سے آئی ہے _ اس کی سہیلیوں نے اسے سمجھا کربھیجا تھا کہ دیہات میں مادہ جنس کو حقوق پورے نہیں ملتے ، لہذا تم پہلے ہی دن اپنے مالک سے اپنے حقوق کی بات کرنا _

اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ مجھے بیل کے برابر حقوق چاہیں _"

میں نے کہا : " بیل تو ہل جوتتا ہے _"

اس نے کہا : " میں گھر میں قید ہو کر نہیں رہ سکتی _جو کام بیل کرتا ہے وہ میں بھی کر سکتی ہوں _"

چنانچہ میں نے اسے ہل جوتنے پر لگا دیا _ اب یہ خوشی خوشی کھیت میں بھی کام کرتی ہے اور دودھ بھی دیتی ہے _

بیل کے پاس کرنے کو کام نہیں ، لہذا وہ سارا دن چھپر میں آرام کرتا ہے اور بھینس کو مزید اپنے حقوق مانگنے پر اکساتا رہتا ہے _

"عورت مارچ کے آفٹر شاکس

جغرافیائی اعتبار سے پاکستان ایسا عظیم ملک ہے جس میں آدھ گھنٹے کی ڈرائیو سے آپ ایشیا سے یورپ والے موسم میں پہنچ جاتے ہیں ...
16/03/2025

جغرافیائی اعتبار سے پاکستان ایسا عظیم ملک ہے جس میں آدھ گھنٹے کی ڈرائیو سے آپ ایشیا سے یورپ والے موسم میں پہنچ جاتے ہیں ۔۔ ہری پور کا موسم و درخت پنجاب والے ہیں ۔۔ جبکہ ایبٹ آباد کے درخت و موسم یورپ والے ہیں ۔۔

شاہراہ قراقرم  کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا ...
15/03/2025

شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔ رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نہ دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں یہ قدرتی حسن کا بیش قیمت تحفہ خداوندی ہے جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے.
پاکستان زندہ باد ❤️

لالہ زار وادی کاغان لالہ زار کو دلکش اور مہکتے پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے، یہ گلستان فردوس ناران سے محض 18 کلومیٹر کے ...
03/03/2025

لالہ زار وادی کاغان
لالہ زار کو دلکش اور مہکتے پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے، یہ گلستان فردوس ناران سے محض 18 کلومیٹر کے فاصلے اور 10246 فٹ کی بلندی پر وادی کاغان کے حسین ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
لالہ زار پہاڑ سے اوپر سیف الملوک جھیل کے اختتام پر واقع ہے ۔ ایک وسیع سر سبز سطح مرتفع وادی کا خوبصورت نظارہ دکھاتی ہے۔ اس جگہ پر جیپ کے ذریعے کئی خطرناک موڑوں سے ہو کر پہنچا جا سکتا ہے۔ ...

جب ایک طالب علم نے نامور ماہرِ بشریات مارگریٹ میڈ سے دریافت کیا کہ کسی تہذیب کی ابتدا کا پہلا نشان کیا ہوتا ہے، تو وہ یہ...
24/02/2025

جب ایک طالب علم نے نامور ماہرِ بشریات مارگریٹ میڈ سے دریافت کیا کہ کسی تہذیب کی ابتدا کا پہلا نشان کیا ہوتا ہے، تو وہ یہ توقع کر رہا تھا کہ وہ مٹی کے برتن، سنگ تراشی کے اوزار یا شکار کے آلات کا ذکر کریں گی۔ مگر نہیں، میڈ نے جواب دیا کہ کسی قدیم تمدن کی اولین علامت وہ ہڈی ہے جو ٹوٹی اور پھر جُڑ گئی—بالخصوص ایک شکستہ اور پھر مندمل ہونے والی ران کی ہڈی۔

میڈ نے وضاحت کی کہ حیوانی دنیا میں اگر کسی جانور کی ٹانگ ٹوٹ جائے تو وہ زندہ نہیں رہ پاتا۔ وہ نہ خطرات سے فرار ہو سکتا ہے، نہ پانی پینے دریا تک جا سکتا ہے، اور نہ ہی خوراک کے حصول کے قابل رہتا ہے۔ یوں وہ شکاری درندوں کے لیے آسان شکار بن جاتا ہے۔ کسی جاندار کا اتنی دیر تک زندہ رہنا کہ اس کی ہڈی جُڑ جائے، اس امر کا ثبوت ہے کہ کسی نے اس کے پاس ٹھہر کر اس کی تیمارداری کی، اس کے زخموں کو مندمل ہونے میں مدد دی، اسے تحفظ فراہم کیا، اور اس کی مکمل صحت یابی تک اس کا خیال رکھا۔

میڈ نے کہا: "کسی کو اس کے کٹھن وقت میں سہارا دینا ہی تہذیب کی ابتداء ہے۔"

ہماری تاریخ میں کچھ تو گڑبڑ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!"ہماری تاریخ میں کچھ تو گڑبڑ ضرور ہے۔۔ اہرام مصر کے بعد مجھے جس چیز نے سب سے...
15/02/2025

ہماری تاریخ میں کچھ تو گڑبڑ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

"ہماری تاریخ میں کچھ تو گڑبڑ ضرور ہے۔۔ اہرام مصر کے بعد مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ "حیران و پریشان" کیا ہے وہ ہے، ایسٹر آٸی لینڈ ۔ ٹیکنالوجی اور ساٸنس کا جب کوٸی نام و نشان نہیں تھا،،،،،،،، دور دور کوٸی علاقہ بھی نہیں تھا وہاں سے کوٸی "اوزار" نہیں ملے، لوگ کہاں سے آٸے تھے، اور کہاں چلے گٸے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ایک طرف ساٸنس کہتی ہے، کہ دنیا میں "انسان" کا قد ہمیشہ سے یہی پانچ یا چھ فٹ ہی رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر آپ اہرام مصر اور ایسٹر آٸی لینڈ کے بارے میں "گہرائی" سے پڑھ لیں،، تو بندہ فکر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوجاتا ہے۔کیونکہ یہ چیزیں تو اب بھی موجود ہیں۔ زیادہ تر دوست Easter Island کے بارے میں شاید نہیں جانتے ہوں گے۔۔۔ سو ان کی رہنمائی کے لیے بتاتا چلوں کہ ایسٹر آئی لینڈ دنیا کی ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر تراشے گٸے پتھروں کے بڑے بڑے اور عظیم مجسمے موجود ہیں۔

اب یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ اتنے مجسمے کیسے بناٸے گٸے۔ بل کہ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ اس "ایسٹر آئی لینڈ" کے اس پاس ایسا کچھ بھی موجود نہیں،،،، کہ ہم اس طرف توجہ مرکوز کریں۔۔۔۔یعنی اگر یوں کہا جاٸے کہ یہ دنیا کی تنہا ترین جگہ ہے،،،،،،، تو ہرگز غلط نہیں ہوگا کیوں کہ یہاں سے قریب ترین جزیرہ تقریبا 2000 کلومیٹر دوری پر ہے۔ میں پھر سے دہراتا چلوں ”دو ہزار کلومیٹر“۔اسکے بعد ہم ہرگز یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ یہاں یہ تراشے ہوٸے پتھر کہاں سے لاٸے گٸے ہونگے کیونکہ یہ فاصلہ ہمارے بنوں سے دوبٸی تک بنتا ہے۔

اسکے علاوہ "آثار قدیمہ" والوں کو آس پاس زیر سمندر بھی ایسا کچھ نہیں ملا، جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ یہاں کچھ لوگ ایسے آباد تھے،جوکہ بہت ہی طاقتور ہوا کرتے تھے کیوں کہ یہ تراشے ہوٸے پتھر بہت وزنی ہیں۔۔ ایک ایک پتھر کا وزن 200 ،250،255، 270 ٹن ہے۔۔۔یعنی عام گاڑیوں سے ان پتھروں کا وزن زیادہ ہے۔۔۔۔۔ یہ پتھر آج بھی موجود ہیں۔ لوگ ان کو دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے،،، کہ یہاں ایسے تراشے ہوۓ پتھروں کی تعداد چار سو کے قریب ہے نیچے تصویر میں آپ ایک سیمپل دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اب بھی لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان پتھروں کو ہلا ٸیں لیکن ایک بندہ تو کیا دس 10 لوگ مل کر بھی ان پتھروں کو نہیں ہلاسکتے کیونکہ یہ بہت ہی وزنی ہیں۔ پھر انکو اس قدر خوبصورت طریقے سے تراشنا، پرفیکٹ طریقے سے لگانا اور وہ بھی ٹیکنالوجی کے بغیر عام انسانوں کا کام ہرگز نہیں ہے۔

آثار قدیمہ والوں کا کہنا ہے،، کہ "Easter Island" میں رہنے والوں کے پاس کوئی کرین، پہیہ یا مشینری وغیرہ نہیں تھی اس کے علاوہ وہاں ہاتھی بھی نہیں تھے، اور نہ ہی یہ پتھر ہاتھی اٹھا سکتے ہیں۔۔ یعنی ان تراشے ہوٸے پتھروں کو بنانے کا،انکو لے جانے کا اور انکو صحیح جگہ پر کھڑا کرنے کا تمام تر کام انسانی زور بازو سے ہی انجام پایا ہے۔لیکن کیا وہ عام انسان تھے؟ اسکا فیصلہ آپ نیچے پتھر کو دیکھ کر کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔یعنی دنیا میں بعض راز ایسے بھی ہیں،جن کے بارے میں ہم صحیح طور سے نہیں جانتے۔۔۔۔۔اس جزیرے کو پہلی بار 1722 میں دریافت کیا گیا۔

اس جزیرے کو جب پہلی بار انگلش ریسرچ ٹیم نے دیکھا، تو دیکھتے ہی سب دنگ رہ گٸے،،،،، کیونکہ تن تنہا Island میں 400 کے قریب اتنے بڑے بڑے پھتر تراش کر بنانا،، اور پھر ان کو لگانا یقینا حیران کر دینے والی بات تھی۔۔۔۔۔پہلی بار یہاں جب ریسرچ ٹیم آئی،،،،،،، تو وہ لکھتے ہیں کہ ان تراشے ہوٸے پتھروں کے مجسمے دیکھ کر ہم ہکا بکا رہ گئے،،،،، کیونکہ ان لوگوں کے پاس بھاری مشنری تو دور کی بات سادہ Simple مشن بھی نہیں تھی،،،، تو انہوں نے اتنے بڑے مجسمے کیسے بناٸے ہوں گے؟ اس کے متعلق کافی کہانياں مشہور ہیں لیکن حقیقت کسی کو بھی معلوم نہیں..

Address

Lahore

Telephone

+923247385535

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hassnain Bin Saqib posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Hassnain Bin Saqib:

Share