Adil Lahorei Cultural Club

Adil Lahorei Cultural Club Pakistan inherits a rich culture of Great Mughal have left behind in shape of buildings, gardens and monuments. As we have rich culture & history to share.

Adil Lahorei Cultural Club stands as a milestone in exploring the hidden treasure of the historical city and offering the best experience which you will always remember about your life . Today even these are of great attraction for the people, especially the young generation. These youngsters and even the foreigners visiting Pakistan have great attraction for Lahore. LAHORE seeing rules of many d

ynasties still holds great treasures within itself. As the time wades the old culture still there are steps to be followed and enjoyed. Like touring the WALLED CITY OF LAHORE, in TANGAS. This was once a Royal mean of transport, that even the British Rule enjoyed moving about in Tangas. Being an ancient mean of moving nowadays have become an enjoyable mean of excursion. Adil Lahorei as his name is pure Lahore born and brought up in this historical city, well knows the magic hidden in these places. Being a son of the Lahore's soil Adil holds a good grip over the historical places as he has visited these places number of times, gathered all stories from the seniors living in those areas, these stories traveled from heart to heart & generation to generation. This was a real treasure that Adil Lahorei decided to create interest to explore the historical city of Lahore and share it with the new young generation as they must be aware of this Royal City of Lahore. Means of transport are many in the world but horse has been an ancient and easy mean of travelling. Since the very beginning people used just horses to travel far & wide for trading and even in wars. But horse is a peaceful animal who love to be treated with soft feelings and love. ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB stands as a milestone in exploring the hidden treasure of historical city, LAHORE. Adopting horse carrying seems to be real attraction for the youngsters. Tonga Tour is a weekly activity which is organized by ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB. People really enjoy exploring the WALLED CITY with Adil. Starting at early morning and with whole day's plan carries tour to KAMRAN'S BARA DARI at Ravi, Jehangir's Tomb across the Ravi at Shahdra, the gates of lahore then while enjoying the tonga ride all visit the Lahore Fort, which carries history of many invaders in Lahore. Each ruler have their strong roots deeply en-planted around the great fort. These tours are not only for natives rather they capture the height of interest & attraction of foreigners. Being a source of attraction for the people from far & wide sub- continent always have been of great attraction. The rulers left behind a lot more for the generations to enjoy and know about the culture the kings and queens were living in. If Lahore Fort tells us about the different rulers of Lahore (Indo- Pak), the Shalimar Garden and Jehangir's Tomb also show us that even after their death they have same royal status. No matter these are places where today people love going for family picnics and enjoyment. One can feel the air of those royalties living around. ADIL LAHOREI CULTURE CLUB holds a sound grip over the history of Lahore and it's surroundings. As well as the mysteries of the city dwelling within the WALLED CITY of Lahore. During the grand past Lahore was just surrounded by walls and had 12 gates to the entry, which were guarded by the royal guards. As the time passed by the city developed and Lahore is now expanded from all edges. Nowadays hardly anyone knows even the names of those 12 gates. 1. Lahori Gate 2. Delhi Gate, 3. Sheranwalan Gate, 4. Mochi Gate, 5. Masti Gate, 6. Shah Alam Gate, 7. Bhatti Gate, 8. Roshnai Gate, 9. Taxali Gate, 10. Akabari Gate, 11. Mori gate 12. ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB also conduct different activities to present the Punjab's culture by promoting in different phases. Dramas, cultural activities like as food and dress show are also conducted by them. Our Cultural Activities
1- Tonga Tour walled city of lahore
2- Cultural walk for the formation and Restoration of Culture
3- To get the chance for youth
4- To perform in Mega event in our special and traditional dresses
Membership is available on very minimum amount to join them and know about their activities.
team
Adil Lahorei CEO ALCC
Nida Nasir : Manager ALCC
Nouman Nasir : Official Photographer ALCC
Ali / Usman / Sabir / Nouman / Ozair : Event organizer
Muhammad Ali : Media Manager

ماضی قریب کی بات ہے:جب پاکستان میں بجلی عام نہیں تھی یا دیہی علاقوں میں اس کی سہولت میسر نہ تھی، تو لوگ دستی طریقوں سے ٹ...
16/06/2025

ماضی قریب کی بات ہے:
جب پاکستان میں بجلی عام نہیں تھی یا دیہی علاقوں میں اس کی سہولت میسر نہ تھی، تو لوگ دستی طریقوں سے ٹھنڈک حاصل کرتے تھے۔ ان میں سب سے مؤثر اور معروف طریقہ چھت سے لٹکائے جانے والے "دستی پنکھے" (ہاتھ سے چلنے والے پنکھے) تھے، جنہیں عموماً "پنكھا" یا "جھولنے والا پنکھا" بھی کہا جاتا تھا۔ یہ کپڑے یا بانس کے بنے ہوتے تھے اور ان کے ساتھ ایک رسی باندھی جاتی تھی جو دیوار یا بستر کے ساتھ بندھی ہوتی تھی۔ کوئی فرد بیٹھ کر یا لیٹے لیٹے رسی کو کھینچتا اور چھوڑتا رہتا، جس سے پنکھا جھولتا اور کمرے میں ہوا چلتی۔
ایسے پنکھے نہ صرف ہوا دینے کے کام آتے تھے بلکہ ان کا جھولا دار انداز ایک خاص طرح کی ٹھنڈک اور سکون بخشتا تھا۔ پرانے حویلیوں، مسافر خانوں اور گدی نشینوں کی رہائش گاہوں میں آج بھی ان پنکھوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ نہ صرف سادگی کا مظہر ہیں بلکہ ماضی کی اُس سادہ، لیکن پراثر زندگی کی ایک خوبصورت یاد بھی ہیں۔
میر احمد کامران مگسی
Photo credit: Sultan Mahmood

👈👈80 کی دہائی میں صبح کی نشریات میں عارفہ صدیقی کا گانا "پہنی ہیں جب سے میں نے بیلے کی کلیاں " نشر ہوتا تھا اور ہم وہ گا...
10/06/2025

👈👈80 کی دہائی میں صبح کی نشریات میں عارفہ صدیقی کا گانا "پہنی ہیں جب سے میں نے بیلے کی کلیاں " نشر ہوتا تھا اور ہم وہ گانا گنگناتے سکول روانہ ہو جاتے تھے۔ آج عارفہ صدیقی 56 سالمکی۔ہو گئی ہیں ۔
عارفہ صدیقی، جو 9 جون 1969ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں، پاکستانی شوبز کا ایک ایسا نام ہیں جنہوں نے 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں اپنی اداکاری اور گلوکاری سے ناظرین کے دلوں میں گھر کر لیا۔ وہ ایک ایسے فنکار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں فن رگ رگ میں بسا ہے۔ ان کی والدہ طلعت صدیقی ایک معروف اداکارہ تھیں، جبکہ خالہ ریحانہ صدیقی بھی ٹی وی اور فلم کی دنیا سے وابستہ تھیں۔ ان کی بہن ناہید صدیقی کلاسیکی رقص کی دنیا میں ایک جانا مانا نام ہیں، اور مشہور پاپ گلوکارہ فریحہ پرویز ان کی کزن ہیں۔ یہی خاندانی پس منظر عارفہ صدیقی کو شوبز کی دنیا میں لے آیا جہاں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
عارفہ صدیقی نے بہت کم عمری میں ہی اپنی فنی زندگی کا آغاز کر دیا۔ انہوں نے پی ٹی وی کے کئی یادگار ڈراموں جیسے "دہلیز"، "سونا چاندی"، "سمندر"، "خواجہ اینڈ سن" اور "عینک والا جن" میں کام کیا، اور ان کی اداکاری میں ایک خاص نرمی اور خمار پایا جاتا تھا جو ناظرین کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔ ٹی وی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اردو اور پنجابی فلموں میں بھی کام کیا، جن میں "ایسا بھی ہوتا ہے"، "قسمت"، "ناراض"، "وڈیرہ"، "آوارہ" اور "گھونگھٹ" جیسی فلمیں شامل ہیں۔ اداکاری کے علاوہ عارفہ نے گلوکاری میں بھی اپنی دھاک بٹھائی اور کئی مشہور گیتوں کو اپنی دلکش آواز سے سرفراز کیا۔
1995ء میں عارفہ صدیقی نے مشہور موسیقار استاد نذر حسین سے شادی کی جو ان سے عمر میں کافی بڑے تھے۔ یہ ایک محبت کی شادی تھی، جس کے بعد عارفہ نے شوبز سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اپنی گھریلو زندگی پر توجہ دی۔ یہ شادی 23 سال تک قائم رہی اور 2018ء میں استاد نذر حسین پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث انتقال کر گئے۔ شوہر کی وفات کے دو ماہ بعد ہی عارفہ صدیقی نے معروف گلوکار اور کمپوزر تعبیر علی سے دوسری شادی کر لی۔ تعبیر علی بھی موسیقی کی دنیا سے وابستہ ہیں اور عارفہ سے عمر میں چھوٹے ہیں۔ اس شادی کے بعد عارفہ صدیقی نے 22 سال کے وقفے کے بعد دوبارہ شوبز میں واپسی کی اور اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ کئی گانوں میں پرفارم کیا۔ انہوں نے ایک گانا "کچھ بھی نہیں" بھی ریلیز کیا، جس میں انہوں نے ماڈلنگ اور گلوکاری دونوں کی ہے۔ عارفہ صدیقی اپنی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھ چکی ہیں، لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنے فن اور ذاتی زندگی میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا سفر آج بھی پاکستانی شوبز میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔

تانگہ جو اپنے دور کی ایک جدید اور زبردست سواری تھی۔ پھر اس کی جگہ سائیکل رکشہ، موٹر سائیکل اور رکشہ نے لے لی کس کس کو تا...
10/06/2025

تانگہ جو اپنے دور کی ایک جدید اور زبردست سواری تھی۔ پھر اس کی جگہ سائیکل رکشہ، موٹر سائیکل اور رکشہ نے لے لی

کس کس کو تانگے کا سفر پسند تھا۔۔؟؟؟؟؟

بچپن کی یادیں دنیا کی بہترین سواری تانگہ جس کےقدموں کی آواز آج بھی سننے والوں کو مسحور کر دیتی ہے!!!!!!!!!

تانگہ لاھور دا ھوے بھاونویں جھنگ دا تانگہ والا خیر منگدا

08/06/2025

Eid Mubarak everyone..
پاکستانیوں کی عید 😁

04/06/2025

سنہری یادیں گزرے وقت کی..
ہمارے زمانے کا خوبصورت دور جو ہم سے بہت دور جا چکا ہے اب تو بس کبھی کبھار یادیں سامنے ا جاتی ہیں تو اپ لوگوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں کیا کیا کمال کے پروگرام پی ٹی وی نے بنایا اور کتنے خوبصورت اور خوبصورت ہیرے لوگ اس ملک کا سرمایہ تھے اب تو سمجھ نہیں اتی کہ ہم کس راہ پہ چل پڑے ہیں ایسے پروگرام نئی نسل کو شاید پتہ ہی نہ ہو ۔۔

تاریخی حقیقت — شیرمال کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟😯شیرمال صرف ایک ناشتہ نہیں… بلکہ ایک خوشبودار تاریخی ورثہ ہے، جو صدیوں پرانی...
28/05/2025

تاریخی حقیقت — شیرمال کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟😯

شیرمال صرف ایک ناشتہ نہیں… بلکہ ایک خوشبودار تاریخی ورثہ ہے، جو صدیوں پرانی شاہی روایت کی نشانی ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں؟
شیرمال کی جڑیں مغل دورِ حکومت سے جا ملتی ہیں، جب خوراک صرف پیٹ بھرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ شان، ذائقے اور ثقافت کا مظہر ہوتی تھی۔
لفظ شیرمال فارسی زبان سے آیا ہے، جس میں "شیر" کا مطلب دودھ اور "مال" کا مطلب آٹا یا گوندھا ہوا مواد ہے۔
یہ نان نما میٹھی روٹی، دودھ، دیسی گھی، زعفران، اور چینی سے تیار کی جاتی تھی۔

یہ مخصوص طور پر مغل بادشاہوں، نوابوں اور امراء کے دسترخوان پر پیش کی جاتی — اکثر اسے قورمہ، نہاری یا دیگر شاہی سالنوں کے ساتھ تناول کیا جاتا۔
شیرمال کو خاص دیگچیوں میں دم دے کر تیار کیا جاتا تاکہ خوشبو، نرمی اور ذائقہ برقرار رہے۔

دلچسپ بات یہ ہے:
نواب اودھ (لکھنؤ) کے دربار میں اسے اتنی اہمیت حاصل تھی کہ شیرمال بنانے والے باورچی الگ سے رکھے جاتے تھے، جنہیں "نان بائی" کہا جاتا تھا۔
یہ روایت بعد میں حیدرآباد، دہلی اور لکھنؤ کی تہذیب کا بھی حصہ بن گئی۔

ہم آج جس شیرمال سے لطف اندوز ہوتے ہیں،
وہ دراصل صدیوں کی محنت، ذائقے کی پہچان اور روایتی کھانوں سے محبت کا نچوڑ ہے۔
ہر بائٹ میں چھپی ہوتی ہے مغل دور کی جھلک، اور یہی خوشبو ہم آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں.
لاہور کے بہترین شیر مال بنانے والوں میں استاد غنی ، چاچا بسا نعمت کدہ والے ، استاد امام دین ، ایبک شیر مال والے ، ملک نہاری اور استاد سمیع کا نام قابل ذکر تھا ایسا معیار تھا لوگ دور دراز سے ان کے شیر مال شادی بیاہوں کے علاوہ فخریہ طور پر ارڈر دیا کرتے تھے
۔

یہ تاریخی تصویر مشہور کراچی بیکری کی ہے، جو غالباً 1950 یا 1960 کی دہائی میں حیدرآباد دكن ، بھارت میں اس کے ابتدائی سالو...
28/05/2025

یہ تاریخی تصویر مشہور کراچی بیکری کی ہے، جو غالباً 1950 یا 1960 کی دہائی میں حیدرآباد دكن ، بھارت میں اس کے ابتدائی سالوں کے دوران لی گئی تھی
کراچی بیکری 1953 میں حیدرآباد، بھارت میں قائم ہوئی، جسے خانچند رمنانی نامی ایک سندھی ہندو مہاجر نے شروع کیا، جو تقسیمِ ہند 1947 کے دوران کراچی (اب پاکستان) سے ہجرت کر کے بھارت آئے تھے۔
اس بیکری کا نام "کراچی" اس شہر کے لیے ایک یادگار خراجِ عقیدت کے طور پر رکھا گیا تھا، جو بانی کا آبائی شہر تھا۔
کراچی بیکری جلد ہی تقسیم سے متاثرہ ہزاروں سندھی مہاجرین کے لیے ایک ثقافتی پل بن گئی، جو پرانی یادوں اور نئی زندگیوں کے بیچ جُڑاؤ کا ذریعہ بنی۔
کراچی بیکری نہ صرف اپنی مشہور فروٹ بسکٹ اور کیک کے لیے جانی جاتی ہے، بلکہ یہ تقسیم کے دور کی ہجرت، حوصلے اور نئی شروعات کی علامت بھی ہے۔

وقت کے ساتھ، کراچی بیکری ایک قومی سطح کا برانڈ بن چکی ہے، لیکن حیدرآباد میں اس کی اصل دکان آج بھی ایک تاریخی ورثے کے طور پر قائم ہے۔
یہ تصویر صرف ایک دکان کی نہیں، بلکہ یہ تقسیم کے دور کی میراث، مہاجرین کی جدوجہد، اور برصغیر کے ثقافتی تسلسل کی ایک زندہ علامت ہے۔
لیکن افسوس حال ہی میں کراچی بیکری کو ایک پُرتشدد ہجوم نے نشانہ بنایا، صرف اس وجہ سے کہ اس کا نام "کراچی" ہے۔ شمس آباد برانچ کے سائن بورڈ کو نقصان پہنچایا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ بیکری اپنا نام تبدیل کرے۔
یہ نام صرف ایک یادگار ہے ایک بچھڑی ہوئی مٹی کی خوشبو، نہ کہ کسی سیاسی وابستگی کی علامت۔

یہ زمانہ کس کس کو یاد ہے جب لوگ مٹی کے تیل کے لئے اس ڈرم والی گدھا گاڑی کا انتظار کرتے تھے ۔
26/05/2025

یہ زمانہ کس کس کو یاد ہے جب لوگ مٹی کے تیل کے لئے اس ڈرم والی گدھا گاڑی کا انتظار کرتے تھے ۔

گرمیاں اب ویسی نہیں رہیں جیسے پہلے ہوا کرتی تھیں۔ایک وقت تھا جب گرمی کی شدت محسوس ہی نہیں ہوتی تھی۔دن میں اسکول جاتے تھے...
23/05/2025

گرمیاں اب ویسی نہیں رہیں جیسے پہلے ہوا کرتی تھیں۔
ایک وقت تھا جب گرمی کی شدت محسوس ہی نہیں ہوتی تھی۔
دن میں اسکول جاتے تھے، وہاں صرف پنکھے ہوتے تھے،لیکن کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہاں اے سی بھی ہونا چاہیے۔

گھر آ کر ٹیوشن جانا ہوتا،
وہاں گرم زمین پر پانی ڈالا جاتا،
چٹائی بچھائی جاتی اور ہم وہیں بیٹھ جاتے۔
سامنے ایک پیڈسٹل فین چل رہا ہوتا،
جب کبھی روٹیشن پہ سامنے آتا تو ہوا لگ جاتی.

پھر گھر آکر رات کو صبح سے تپے ہوئے فرش پر پانی ڈال کر کولر لگا لیتے،
سامنے قطار میں سب کی چارپائیاں لگی ہوتیں۔
پہلی چارپائی پر سونے کے لیے بہن بھائیوں میں لڑائی ہوتی۔
رات کو آسمان کے تارے دیکھتے دیکھتے نیند آ جاتی۔
کبھی آنکھ کھلتی تو آسمان پر جہاز کی روشنی نظر آتی،
یا کسی ٹوٹتے ہوئے ستارے کی چمک —
اور پھر صبح ہو جاتی۔

تب کبھی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ شور ہے تو سائلنٹ روم ہونا چاہیے،
گرمی ہے تو اے سی چاہیے،
صبح روشنی ہوتی ہے تو بلائنڈرز چاہئیں۔

وقت بدل گیا ہے۔
اب نہ روزانہ فرش ٹھنڈا کرنا پڑتا ہے،
نہ چارپائی نکالنی، نہ بستر بچھانا،
نہ کولر میں پانی ڈالنا، نہ رات میں پینے کے لیے ٹھنڈا پانی بھر کے رکھنے کی ضرورت رہی۔

ہر صبح ان سب چیزوں کو سمیٹنے کا تکلف بھی نہیں رہا۔

اب سونے کے لیے ٹھنڈا کمرہ ہے،
بلائنڈرز ہیں،
خاموشی ہے،
اب اے سی کے سامنے سونے کے لیے لڑنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔

مگر اب نہ وہ نیند ہے،
نہ وہ بےفکری،
نہ وہ گھر ہے،
اور نہ وہ لوگ۔
اب گرمی میں وہ ٹھنڈک نہیں، جو پہلے دل کو محسوس ہوتی تھی۔"

کہنے کو تو ہم بہت کچھ حاصل کر چکے ہیں،
ہماری لائف اسٹائل کمفرٹیبل ہو گیا ہے۔
لیکن کیا واقعی ہم نے کچھ پایا ہے؟

سال 1980 کی شادی: جب شادی صرف تقریب نہیں گاؤں کا تہوار ہوتی تھی.بس جناب، بات ہے 1980 کی۔ وہ دور جب شادی صرف دو دلوں کا ن...
22/05/2025

سال 1980 کی شادی: جب شادی صرف تقریب نہیں گاؤں کا تہوار ہوتی تھی.بس جناب، بات ہے 1980 کی۔ وہ دور جب شادی صرف دو دلوں کا نہیں، پورے محلے، چچا، پھوپھی، تایا، ہمسایہ، اور "چوٹی کی طرف کے" رشتہ داروں کا میلہ ہوا کرتی تھی۔ دلہا صاحب کو اکثر آخری لمحے تک یہ نہیں پتا ہوتا تھا کہ وہ دلہا ہیں یا کوئی اتفاقاً سوٹ پہن کر ادھر آ گیا ہے۔

یہ کہانی ہے ان دنوں کی، جب شادی فائیو اسٹار ہوٹل میں نہیں بلکہ گھر کے صحن، گلی، اور کبھی کبھار گاؤں کے واحد پرائمری اسکول کے میدان میں ہوتی تھی۔ اور شادی کی تیاریاں دلہن سے زیادہ روٹھے رشتے منانے میں لگتی تھیں۔اور بہت سے جھگڑے کسی شادی کے انتظار میں سالوں سے بیٹھے ہوتے تھے کہ کب شادی ہو اور کب صلاح ہو۔

شادی کا پیغام پہنچتے ہی سب سے پہلا کام ہوتا تھا ناراض رشتے داروں کو منانا۔ پہلا ہفتہ تو "ریکنسیلیئیشن کمیٹی" کا ہوتا تھا۔ دادا جی بولے
چاچا رشید کو منا لیا، کیونکہ پچھلی شادی پہ اسے بوتل نہیں ملی تھی۔ چاچا رشید بھی تب سے ضد لگا کر شادی کا انتظار کر رہا تھا کہ ویاں تے ویکھ لا ں گاں۔
خالہ رضیہ روٹھی ہوئی تھیں کیونکہ پچھلی بار انہیں کرسی نہیں ملی تھی، دری پر بٹھایا گیا تھا۔
ماما شفیع بھی ناراض تھا کہ پچھلی بار اسے دیگ پر نہیں بٹھایا گیا تھا۔ اس نے آرام سے نہیں ماننا۔ پگ ہی رکھنی پڑنی اسکے پاوں میں۔
پر ایک بات ہے اس جھگڑے اور ناراضگی میں ایک محبت،اور مان ہوتا تھا۔

تاریخ رکھنا – جو سب کو راس آئے
اس زمانے میں شادی کے دن رکھنا بھی پوراڈرامہ ہوتا تھا۔ پورے خاندان میں پوچھا جاتا تھا کہ ان دنوں کسی کے امتحان تو نہیں ہونے والے یا کسی کے بچہ تو نہیں ہونے والا۔ کیونکہ پچھلی دفعہ خالہ ثریا نے آنے سے انکار کر دیا تھا کہ اسکی بہو کا چھلا پڑنے والا یے۔
پیر کو مولوی صاحب کے بھانجے کی ولیمہ
منگل کو چچا کریم دین کے پوتے کے ختنے
بدھ کو رمضان نائی پہلے ہی بک ہے۔
جمعرات بچ گئی۔۔اور سب راضی، سوائے چاچی سکینہ کے، کیونکہ ان کا "ستارہ" جمعرات کو ٹھیک نہیں تھا۔

خیر سے جمعہ طے پا گیا۔

پکوانوں کی تیاری
شادی پر کیا پکے گا کیوں پکے گا اسکے لئے کابینہ کی سپیشل میٹنگ ضروری ہوتی تھی۔ جس میں چاچے مامے شرکت کرتے تھے اور پورا دن کی بحث کے بعد بات آلو گوشت ، نان اور زردے پر ختم ہوتی تھی۔ یار پانی گھٹ پوائیں پچھلی واری شورا زیادہ سی۔ تائے جیدے نے حکم جھاڑا۔
شادی اور نائی
گاوں میں کسی کے ختنے ہونے ہوں یا شادی کا پیغام دینا ہو یا دیگیں پکانی ہوں رمضان نائی کے بغیر یہ نا ممکن تھا۔
ان دنوں شادیوں پر مٹھائی کے لئے باقاعدہ حلوائی گھر پر ہی بھٹی لگا کر تازہ مٹھائی تیار کرتا تھا۔حلوائی آیا، بھٹی لایا، ساتھ وہ دیگچی جس میں پورا بچہ سما جائے۔
سوجی کی رس ملائی، گلاب جامن، اور وہ خاص مٹھائی جس کا نام کسی کو نہیں پتا، مگر سب کھاتے ضرور ہیں۔
شادی سے دو دن پہلے ہی گاؤں میں خوشبو پھیل گئی۔
دیگیں آ گئیں، باورچی بھی – جن کے ساتھ ہمیشہ ایک چھوٹا سا لڑکا ہوتا تھا جو دیگ میں جھانک کر چمچہ چلاتا تھا اور ہر کسی سے کہتا۔ہر خاندان میں ایک ایسا بابا ضرور ہوتا تھا جو ہر پانچ منٹ کے بعد نمک چیک کرنے آتا تھا۔

دیگ میں بکرے کا قورمہ، جسے پکاتے پکاتے رمضان نائی خود بھی قورمہ جیسے رنگ کے ہو گئے۔ زردہ – جس میں اتنی رنگت تھی کہ ہاتھ لگانے سے لگتا "مہندی لگا لی"۔

خاندان کا ایک بندہ دیگوں پر بیٹھنے کے لئے مخصوص ہوتا تھا اور اسکی وکھری ہی ٹور ہوتی تھی۔ کاندھے پر رومال ، سر پر صافہ اور چہرے پر مدبرانہ سی مسکراہٹ

منجی بسترے
خاندان کے ویلے نوجوان پورے گاوں سے منجی بسترے اکھٹے کرکے لاتے تھے تاکہ مہمانوں کو سلانے میں آسانی ہو۔ چادر، تکیے اور گدے کی نکڑ پو اس گھر کا نام لکھا جاتاتھا تاکہ بستر مکس نہ ہو جائیں۔

شادی سے دو ہفتے پہلے ہی رشتے دار آن دھمکتے
ماموں، پھپھیاں، خالائیں، بچے، اور وہ رشتے دار جنہیں صرف شادیوں پر دیکھا جاتا تھا — سب آ جاتے۔کزنز گھر کے صحن میں کرکٹ کھیلتے، نانا جی ہر ایک کو مشورہ دیتے، اور دادی اماں روز ناپ تول کرتیں کہ آج کتنی روٹیاں بنانی اور کتنی دال پکانی۔

مرچوں والی لائٹس – شادی نہیں، دیوالی لگتی تھی
دو ہفتے پہلے ہی مرچوں والی لائٹس لگا دی گئیں، جو ہر رات ٹِک ٹِک ٹِک... فِس کرتی تھیں۔پورے گاؤں کو لگتا تھا
"او جی! ڈسکو لائٹاں لگیاں نے!"
اور جب رات کو بتی جاتی، سب بچے چلاتے:
"اوہ ہو! ویاہ والی لائٹاں مر گئیاں!"

ٹینٹ، کرسیاں، اور دیسی انداز
ٹینٹ لگے، وہ بھی رنگ برنگے – نیلا، گلابی، سبز، اور کچھ ایسے رنگ جو صرف 80 کی دہائی میں مقبول تھے۔
کرسیاں کم تھیں، اس لیے آگے "وڈے لوگ" بیٹھے، اور باقی سب دری پر۔ دری بھی وہی، جو ہر شادی میں آتی، اور ہر بار نئی دھلائی سے کم از کم تین رنگ ہلکے پڑ جاتے۔

دری پر ڈھولکی اور ناچ،مہندی کی رات، جب ڈھولکی بجی، تو پہلا ڈانس ہمیشہ وہی خالہ کرتی تھی جو کہتی تھیں:
"میں ناچتی نہیں، بس بچوں کا دل رکھنے کو..."
باقی عورتیں تالیاں بجاتیں، بچے پیچھے ڈھول بجاتے، اور لڑکیاں "چٹیاں کلائیاں" گانے پر ناچتیں۔ پھر وہ لمحہ بھی آیا جب چاچا رفیق خود سے بے خبر ہو کر لٹھا کا کرتا اُٹھا کر ناچنے لگے، اور کسی نے پیچھے سے آکر کہا: چاچا،دھوتی نا ڈگ پئےْ

مامے کا کھارے سے اتارنا – اور ماموں خود گُھٹنے پکڑ کر بیٹھے
ماما صدیق سگریٹ پی کو سو رہا تھا کہ کسی نے اسے جگایا کہ منڈے نو کھارے تو لا دے۔پھر مامے نے شان سے دو روپے دلہے کے ہاتھ میں رکھے اور اسے گود میں اٹھا کر نیچے کھڑا کر دیا۔جسے کھارے سے اتارنا بولتے تھے، اکثر اس رسم کے دوران مامے کو چک پڑ جاتی تھی۔ کسی نےآواز:او جی مامے صدیق دا جوڑ نکل گیا اے، پر رسم پوری ہو گئی

دلہا بیچارہ
دولہا ان دنوں پورا ایک نمونہ لگتا تھا۔ جناح کیپ اور بڑا سا سہرہ اور ایک دو روپے کے نوٹوں ولے ڈھیروں ہار۔ دولہا اسی فکر میں گھائل ہوتا تھا کہ کوئی بچہ نوٹ نہ اتار لے۔

دلہا صاحب جب سفید گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، تو باجے والے نے گانا بجایا ویر میرا گھوڑی چڑھیا۔ پورے پنڈ کی کڑیاں اپنے چھت کی منڈیر پر کھڑی دوپٹے سے منہ چھپائے دلہا میں کیڑے نکالنے میں مصروف ہوتی تھیں۔ بارات کے سانے ماما نزیر لال رنگ کے تھیلے میں چونیاں اٹھنیا اٹھائے چل رہا ہوتا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ریزگاری نکال کر بارات پر بھینک دیتا تھا جسے لوٹنے کے لئے گاوں کے بچے باراتیوں کے کپڑوں کا حشر نشر کر دیتے تھے۔

شبیر دبئی والا اپنے اگفا کلر کیمرا گلے میں لٹکائے الگ ہی ٹور بنائے کھڑا ہوتا تھا۔ اسے یہ فکر ہوتی تھی کہ 36 والی ریل نہ مک جائے۔

بزرگوں کی "ملنی" – جیسے تھپڑ نہیں، گلے ملنے کی مقابلہ بازی ہو

ایک طرف دلہے کے مامے، دوسری طرف دلہن کے تایا۔ گلے ملتے، دائیں، بائیں، پھر دوبارہ – اور اتنا زور سے کہ لگتا تھا کہ ایک دوسرے کی ہڈیاں نا توڑ دے

نکاح پر حق مہر کا جھگڑا – مولوی بھی پریشان
مولوی صاحب:
"حق مہر کتنا رکھنا ہے؟"
دلھن کے ابا:
"دو ہزار"
دولہے کے چاچا:
"دو ہزار؟ کی لندن لے کے جا رہے ہو؟"
پھر مولوی صاحب بولے:
"چلو جی، بیچ کا نکال لو، ا ہزار کر لو، اللہ برکت دے گا

رخصتی کا لمحہ
دلھن کے ابا آنکھیں پونچھتے ہوئے فرماتے: "بیٹی، جہیز تھوڑا ہے، پر دعاواں بہت نیں
اور ماں کا بس نہیں چلتا تھا کہ دلہن کو دوبارہ پیچھے کھینچ لے۔ رخصتی کے وقت سب روتے تھے۔ ایک بات تھی جتنی بھی رنجش ہوتی تھی پر اس وقت نکلنے والے آنسو خالص ہوتے تھے۔ اور دلہن کا بھائی، جو پورے وقت "اکڑ کر" کھڑا تھا، چپکے سے رومال سےآنکھیں صاف کررہا ہوتا تھا۔ اور دلہا بیچارہ اس سارے وقت میں یہی سوچ رہا ہوتا

"اماں کہہ رہی تھی جوتا چھپا لیں گے، سو دو سو لگیں گے، میں نے تو پیسے پرس میں بھی نہیں رکھے۔!"

اور یوں ختم ہوئی وہ شادی – جس میں دیگیں زیادہ، نیند کم، قہقہے خالص، اور یادیں زندگی بھر کی تھیں۔
یہ وہ وقت تھا جب شادیاں دل سے ہوتی تھیں، موبائل سے نہیں۔
محبت دیگ سے نکلتی تھی، نہ کہ انسٹاگرام اسٹوری سے۔
اور خوشی ہر روٹھے رشتے دار کو منا کر ملتی تھی، نہ کہ "انفالو" کر کے۔

وقت راوی کی طرح گزرتا رہا۔ یوں تو بہت سی بیرونی قومیں لاہور میں وارد ہوئیں اور پھر یہیں کی ہو رہیں مگر اب کچھ اور زمانہ ...
20/05/2025

وقت راوی کی طرح گزرتا رہا۔ یوں تو بہت سی بیرونی قومیں لاہور میں وارد ہوئیں اور پھر یہیں کی ہو رہیں مگر اب کچھ اور زمانہ تھا۔ انگریز اپنے ساتھ ایک نظام لائے تھے۔ عام لوگوں نے کوئی سو برس بعد سکھ کا سانس لیا۔ ڈاک خانہ، تھانہ اور عدالتیں قائم ہونے سے لوگوں کو امید کی کرن نظر آنے لگی۔

ابتدا میں انگریزی فوج قلعے اور حضوری باغ میں آئی۔ قلعے کی مرمت کی گئی۔ قلعے میں داخل ہوتے ہی لکڑی کا ایک پل نظر آتا ہے جو دیوان خاص کو پرانے باورچی خانے سے ملاتا ہے۔ یہ پل انگریزوں نے بنوایا تھا۔ بہت سے کمروں میں سفیدی پھیر دی گئی جس سے دیواروں پر بنی مغل اور سکھ دور کی قیمتی تصویریں چونے کی تہہ میں چھپ گئیں۔ شہر کے گرد خندق بند کر کے یہاں کمپنی باغ بنا دیا گیا۔ جلد ہی انگریزوں کو پتا چل گیا کہ قلعے میں فوج رکھنا مناسب نہیں ۔ سو پہلے انارکلی میں چھاﺅنی بنائی گئی اسے صدر بازار کا نام دیا گیا ۔ گول باغ بھی ان دنوں گورا باغ کہلاتا تھا۔ اس زمانے میں ہورٹی کلچرل سوسائٹی قائم ہوئی جس نے بعد ازاں لارنس باغ بنایا اور پھر چڑیا گھر بنانے میں بھی مدد دی۔
چھاﺅنی شہر سے باہر میاں میر کے علاقے میں منتقل ہو گئی۔ بادشاہی مسجد مسلمانوں کو واپس مل گئی اور قلعے میں لاہور سیکرٹریٹ قائم ہو گیا۔ قلعہ بندیوں کا دور ختم ہو رہا تھا ۔ اب چھاﺅنیاں کھلے علاقوں میں قائم ہونے لگیں جہاں زیادہ فوجی اور زیادہ جنگی سامان رکھا جا سکتا تھا ور جہاں سے نکل بھاگنا بھی آسان تھا۔

لاہور میں بہت سی تبدیلیاں انگریزوں کے آمد کے ساتھ ہی آنے لگی تھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ شہر کی فصیل کا مقصد ختم ہو گیا۔ نئی آبادیاں شہر سے باہر بسائی جانے لگیں ۔ یوں تو مغل عہد میں بھی لاہور فصیل سے باہر دور دور تک پھیلا ہوا تھا ۔ نولکھا سے لے کر باغبانپورہ تک اور دوسری طرف داتا صاحب سے لے کر چوبرجی اور نواں کوٹ تک لیکن بدانتظامی، جنگوں اور ڈاکوﺅں کے ہاتھوں یہ علاقے بار بار برباد ہوتے رہے۔ خاس طور پر نولکھے کا علاقہ تو کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا تھا۔ سکھوں کے دور میں اور پھر انگریزوں کے ابتدائی زمانے میں لوگ یہاں سے اینٹیں نکال نکال کر بیچتے رہے۔ اب بھی پرانے لاہور میں اور نئی تعمیر ہونے والی کوٹھیوں میں مغل اور نانک شاہی اینٹ صاف دکھائی دیتی ہے۔ کہیں کہیں تو پرانے پتھروں کے بریکٹ اور فرش بھی نظر آ جاتے ہیں۔ انگریزوں نے شہر سے باہر نئی سڑکیں بنائیں۔ بھاٹی کے سامنے لوئر مال، لوہاری کے سامنے انارکلی، شاہ عالمی کے سامنے بانسانوالہ بازار ، موچی دروازے کے سامنے گھاٹی اترتے ہی فلیمنگ روڈ اور دلی دروازے کے سامنے لنڈا بازار ۔
لوئر مال، انارکلی، مال روڈ اور میکلوڈ روڈ کو ڈونلڈ ٹاﺅن کا نیا نام دیا گیا۔ ڈونلڈ میکلوڈ 1865 ءسے 1870ءتک پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر رہا۔ گورنر ہاﺅس بھی میکلوڈ روڈ پر تھا۔ ڈونلڈ ٹاﺅن میں بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ لمبے عرصے تک جاری رہا۔ لیڈی میکلیگن سکول 1859ءمیں قائم ہوا۔ ٹولنٹن مارکیٹ کو یہ نام بعد میں دیا گیا۔ ابتدا میں تو یہ عمارت 1864ءمیں بین الاقوامی نمائش کے لیے Exhibition Hall کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس سڑک کو بھی نمائش روڈ کہا جاتا تھا۔ اس نمائش کی خبریں یورپ کے اخبارات میں نکلیں تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے بھی ہم کس قدر ترقی یافتہ تھے اور بہت معیاری دست کاریاں اور صنعتی اشیا بناتے تھے۔ آگرہ بینک کے نام سے لاہور کا سب سے پہلا بینک پرانی انار کلی سے سیکرٹریٹ کی طرف جاتے ہوئے نکڑ پر قائم ہوا ۔ یہ سڑک بینک روڈ کہلانے لگی۔ یہاں میرے ہم جماعت سعادت اللہ خان آئی جی پولیس بھی بیٹھتے رہے۔ منٹگمری ہال اور لارنس ہال بھی ابتدائی زمانے کی عمارتیں ہیں۔ یہ سب عمارتیں پرانی چھوٹی اینٹ اور چونے سے بنائی گئی ہیں۔ ابھی انگریزی اینٹ یہاں نہیں پہنچی تھی۔ پھر قدیم یونانی اور رومی طرز کے لمبے ستون متعارف کرائے گئے۔ خاص طور پر لیڈی میکلیگن سکول بہت ہی خوبصورت ہے۔ اسے محفوظ رکھنا چاہیے۔ ٹولنٹن مارکیٹ بھی قومی ورثہ ہے جسے بچانے کے لیے صدر پاکستان کو خصوصی حکم دینا پڑا تھا۔
نئے لاہور میں ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی کہ فصیل سے باہر زمیں کے وسیع قطعات موجود تھے۔ ماضی میں مکان چھوٹے اور کئی منزلہ ہوتے تھے۔ اب وسیع رقبے پر بڑی بڑی کوٹھیاں بننے لگیں۔ صحن گھر کے اندر ہوا کرتے تھے لیکن اب گھر سے باہر باغ لگانے کا رواج شروع ہوا۔ انگریزوں کے آتے ہی ریل گاڑی بھی یہاں پہنچ گئی۔ لاہور کے پہلے اخبار کوہ نور کی اشاعت شروع ہوئی۔

تحریر بشکریہ : ڈاکٹر اعجاز انور

Address

Lahore
54000

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00
Sunday 09:00 - 17:00

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Adil Lahorei Cultural Club posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Adil Lahorei Cultural Club:

Share

Category

Our Story

Pakistan inherits a rich culture of Great Mughal have left behind in shape of buildings, gardens and monuments. Today even these are of great attraction for the people, especially the young generation. These youngsters and even the foreigners visiting Pakistan have great attraction for Lahore. LAHORE seeing rules of many dynasties still holds great treasures within itself. As the time wades the old culture still there are steps to be followed and enjoyed. Like touring the WALLED CITY OF LAHORE, in TANGAS. This was once a Royal mean of transport, that even the British Rule enjoyed moving about in Tangas. Being an ancient mean of moving nowadays have become an enjoyable mean of excursion. Adil Lahorei as his name is pure Lahore born and brought up in this historical city, well knows the magic hidden in these places. Being a son of the Lahore's soil Adil holds a good grip over the historical places as he has visited these places number of times, gathered all stories from the seniors living in those areas, these stories traveled from heart to heart & generation to generation. This was a real treasure that Adil Lahorei decided to create interest to explore the historical city of Lahore and share it with the new young generation as they must be aware of this Royal City of Lahore. Means of transport are many in the world but horse has been an ancient and easy mean of travelling. Since the very beginning people used just horses to travel far & wide for trading and even in wars. But horse is a peaceful animal who love to be treated with soft feelings and love. ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB stands as a milestone in exploring the hidden treasure of historical city, LAHORE. Adopting horse carrying seems to be real attraction for the youngsters. Tonga Tour is a weekly activity which is organized by ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB. People really enjoy exploring the WALLED CITY with Adil. Starting at early morning and with whole day's plan carries tour to KAMRAN'S BARA DARI at Ravi, Jehangir's Tomb across the Ravi at Shahdra, the gates of lahore then while enjoying the tonga ride all visit the Lahore Fort, which carries history of many invaders in Lahore. Each ruler have their strong roots deeply en-planted around the great fort. These tours are not only for natives rather they capture the height of interest & attraction of foreigners. As we have rich culture & history to share. Being a source of attraction for the people from far & wide sub- continent always have been of great attraction. The rulers left behind a lot more for the generations to enjoy and know about the culture the kings and queens were living in. If Lahore Fort tells us about the different rulers of Lahore (Indo- Pak), the Shalimar Garden and Jehangir's Tomb also show us that even after their death they have same royal status. No matter these are places where today people love going for family picnics and enjoyment. One can feel the air of those royalties living around. ADIL LAHOREI CULTURE CLUB holds a sound grip over the history of Lahore and it's surroundings. As well as the mysteries of the city dwelling within the WALLED CITY of Lahore. During the grand past Lahore was just surrounded by walls and had 12 gates to the entry, which were guarded by the royal guards. As the time passed by the city developed and Lahore is now expanded from all edges. Nowadays hardly anyone knows even the names of those 12 gates. 1. Lahori Gate 2. Delhi Gate, 3. Sheranwalan Gate, 4. Mochi Gate, 5. Masti Gate, 6. Shah Alam Gate, 7. Bhatti Gate, 8. Roshnai Gate, 9. Taxali Gate, 10. Akabari Gate, 11. Mori gate 12. ADIL LAHOREI CULTURAL CLUB also conduct different activities to present the Punjab's culture by promoting in different phases. Dramas, cultural activities like as food and dress show are also conducted by them. Our Cultural Activities 1- Tonga Tour walled city of lahore 2- Cultural walk for the formation and Restoration of Culture 3- To get the chance for youth 4- To perform in Mega event in our special and traditional dresses Membership is available on very minimum amount to join them and know about their activities. #ALCC team Adil Lahorei CEO ALCC Nida Nasir : Manager ALCC Nouman Nasir : Official Photographer ALCC Ali / Usman / Nouman / Ozair : Event organizer Muhammad Ali : Media Manager Official Photographer