Gilgit Baltistan

Gilgit Baltistan Promoting Gilgit Baltistan Tourism

18/08/2025

From Paradise to Pain

آہ وطن 💔💔

A section of the bridge at Baghicha on the Jaglote-Skardu Road (Baltistan Highway) has been washed away by a powerful fl...
15/08/2025

A section of the bridge at Baghicha on the Jaglote-Skardu Road (Baltistan Highway) has been washed away by a powerful flood.

This bridge is a crucial link, connecting Baltistan with the rest of the country and supporting vital transportation and trade.

08/08/2025

بچوں کا ثقافتی رقص (Culture Dance) کرنا نہ صرف ایک معصومانہ اور فطری اظہارِ خوشی ہے بلکہ یہ ان کی ثقافت، شناخت، اور اعتماد کی تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔ ایسے رقص جو اسکول، جماعتی محفل، یا قومی تہواروں میں بچوں کے ذریعے پیش کیے جاتے ہیں، ان میں نہ کوئی فحاشی ہوتی ہے، نہ شہوت، نہ گناہ — بلکہ وہ محض معاشرتی و ثقافتی تعلیم، خوشی، اور ایک مثبت سرگرمی کی علامت ہوتے ہیں۔

یہ ثقافت اور ورثے کی تعلیم کا ذریعہ ہے۔ یہ بچوں میں خود اعتمادی اور اظہار کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ یہ انہیں اپنے علاقے، زبان، اور روایات سے جوڑتا ہے۔ اسکولز اور تعلیمی ادارے اکثر ایسے رقص کرواتے ہیں تاکہ بچوں کو teamwork، discipline، rhythm، اور public performance کا شعور ملے۔

جو لوگ بچوں کے معصومانہ ثقافتی رقص پر تنقید کرتے ہیں، وہ دراصل یا تو دینی تعلیمات کو افراط کے ساتھ سمجھتے ہیں یا نفسیاتی طور پر منفی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں: جنہیں ہر خوشی میں "حرام" نظر آتا ہے، جو اپنے تنگ ذہن کو دین سمجھتے ہیں، اور جو بچوں کی معصوم خوشیوں کو فتنہ اور فحاشی کا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

حضرت علیؑ نے فرمایا: "جہالت سب سے بڑی دشمنی ہے، اور تنگ نظری سب سے بدترین جہالت۔"

اسلام ہمیں خوشی منانے سے نہیں روکتا، بلکہ شائستگی، ادب، اور حدود کے اندر رہتے ہوئے خوشی کو ثواب کا درجہ دیتا ہے۔ بچوں کا ثقافتی رقص اگر فحاشی یا بے حیائی سے پاک ہو تو اس میں نہ دین کا نقصان ہے، نہ اخلاق کا۔ بلکہ یہ تعلیم و تربیت کا حصہ ہے۔

بچوں کا ثقافتی رقص کوئی گناہ نہیں بلکہ تہذیب کا اظہار ہے۔ ان پر تنقید کرنے والے خود اپنی جہالت، حسد، اور تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دین ایسی معصوم خوشیوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے، بلکہ ان کے ذریعے روحانی اور معاشرتی توازن کی تعلیم دیتا ہے۔

والدین کے اکلوتے بیٹے اور دو بہنوں کے اکلوتے پڑھے لکھے بھائی جنید کا اپنے محلے کے ایک نوجوان سے جھگڑا ہو گیا. ہاتھا پائی...
03/08/2025

والدین کے اکلوتے بیٹے اور دو بہنوں کے اکلوتے پڑھے لکھے بھائی جنید کا اپنے محلے کے ایک نوجوان سے جھگڑا ہو گیا. ہاتھا پائی ہوئی اور کچھ گالیوں کا تبادلہ بھی ہوا.جنید گھر آیا اور اپنے کمرے میں بیٹھ گیا. اس نے اپنے دشمن کو مارنے کا فیصلہ کر لیا اور الماری سے پستول نکال لیا. اچانک اسے اپنے ایک دوست کی نصیحت یاد آ گئی. دوست نے اسے ایسا کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے 30 منٹ کے لئے واردات کے بعد کی صورتحال تصوراتی طور پر دیکھنے کا کہا تھا.
جنید نے تصور میں اپنے دشمن کے سر میں تین گولیاں فائر کر کے اسے ابدی نیند سلا دیا. ایک گھنٹے بعد وہ گرفتار ہو گیا. گرفتاری کے وقت اس کے والدین اور دو بہنیں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں. اس کی ماں بے ہوش ہو گئی. مقدمہ شروع ہوا تو گھر خالی ہونا شروع ہو گیا. ایک کے بعد ایک چیز بکتی گئی. بہنوں کے پاس تعلیم جاری رکھنا ناممکن ہو گیا اور ان کے ڈاکٹر بننے کے خواب مقدمے کی فائل میں خرچ ہو گئے.بہنوں کے رشتے آنا بند ہو گئے اور ان کے سروں میں چاندی اترنے لگی. جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہر ہفتے والدین اور بہنیں ملاقات کے لئے جاتے. بہنوں کا ایک ہی سوال ہوتا کہ بھیا اب ہمارا کیا ہو گا؟ ہم اپنے بھائی کے بستر پر کسے سلائیں گی؟ ہم بھائی کے ناز کیسے اٹھائیں گی؟ بھائی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا. فیصلے کا دن آیا اور جنید کو سزائے موت ہو گئی. سزائے موت کی تاریخ مقرر ہو گئی. 25 منٹ گزر چکے تھے اور جنید کے جسم پر لرزہ طاری ہو چکا تھا. جیل میں وہ اپنی موت کے قدم گن رہا تھا اور گھر میں والدین اور بہنیں اپنے کرب اور اذیت کی جہنم میں جھلس رہے تھے. جنید کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دی گئیں اور اسے پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا گیا. 29 منٹ ہو چکے تھے. پھانسی گھاٹ پر پیر رکھتے ہی 30 منٹ پورے ہو گئے. جنید پسینہ پسینہ ہو چکا تھا. اس کے جسم میں کپکپی طاری تھی. اس نے پستول واپس الماری میں رکھ دیا. اس نے میز سے اپنی بہنوں کی دو کتابیں اٹھائیں اور بہنوں کے پاس گیا. بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری پیاری بہنو تمہارے پڑھنے کا وقت ہو گیا ہے. خوب دل لگا کر پڑھو کیونکہ تمہیں ڈاکٹر بننا ہے.
چند ماہ بعد جنید ایک بینک میں اچھی پوسٹ پر ملازم ہو گیا. جنید کی دونوں بہنیں ڈاکٹر بن گئیں. وہ ایک کامیاب اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں. ان 30 منٹ کی تصوراتی واردات اور 30 منٹ کے مقدمے کی کارروائی نے ایک پورے گھر کو اجڑنے سے بچا لیا. آپ اپنی زندگی میں یہ 30 منٹ اپنے لئے ضرور بچا کے رکھئیے گا، یہ 30 منٹ کی تصوراتی اذیت آپ کو زندگی بھر کی اذیت سے بچا لے گی!

03/08/2025

The Moonlit Lake of Deosai

As the full moon rose over the Deosai Plains, a mystical glow illuminated the landscape. The air was crisp and clean, filled with the sweet scent of alpine flowers. Amidst this tranquil setting, a young traveler named Ava found herself drawn to the shores of Sheosar Lake.

Ava had heard tales of Deosai's untouched beauty, but nothing prepared her for the sight of the lake's turquoise waters, shimmering like a canvas of diamonds under the moonlight. As she walked along the lake's edge, the sound of gentle lapping of the water against the shore created a soothing melody.

Suddenly, Ava noticed a figure in the distance – an old man dressed in traditional attire, sitting cross-legged on a rock. He seemed lost in thought, gazing out at the lake. Ava felt an inexplicable connection to the old man and decided to approach him.

As she drew closer, the old man turned to her, and their eyes met. Ava saw a deep wisdom and kindness in his eyes, and he smiled, beckoning her to sit beside him.

"Welcome, young one," he said, his voice low and soothing. "I have been waiting for you. My name is Haji, and I have lived in these mountains all my life."

Ava listened, entranced, as Haji shared stories of Deosai's ancient history, its mythical creatures, and the secrets hidden within the landscape. The night wore on, and the moon reached its zenith, casting a silver glow over the lake.

As Ava prepared to leave, Haji placed a hand on her shoulder. "Remember, the beauty of Deosai is not just in its landscapes, but in the stories and secrets it holds. May you carry a piece of this magic with you always."

Ava thanked Haji and bid him farewell, feeling grateful for the unexpected encounter. As she walked away from the lake, she felt a sense of peace and connection to the natural world that she had never experienced before.

From that day on, Ava carried the essence of Deosai with her, and its moonlit lake remained etched in her memory forever.

---

تھک بابوسر میں آنے والے سیلاب کے باعث متاثر ہونے والی تمام گاڑیوں کو نکال لیا گیا ゚viralシfypシ゚viralシalシ
02/08/2025

تھک بابوسر میں آنے والے سیلاب کے باعث متاثر ہونے والی تمام گاڑیوں کو نکال لیا گیا
゚viralシfypシ゚viralシalシ

خشک خوبانی
02/08/2025

خشک خوبانی

غذر ضلع غذر کے علاقے ہاتون میں دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جہاں ایک ذہنی مریض کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے چار افراد د...
01/08/2025

غذر
ضلع غذر کے علاقے ہاتون میں دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جہاں ایک ذہنی مریض کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے چار افراد دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔ ریسکیو 1122 کے مطابق 60 سالہ ذہنی مریض صادق نے دریا میں چھلانگ لگائی، جسے بچانے کے لیے اس کی بیٹی، پوتی اور سالہ بھی دریا میں کود گئے۔بیٹی نے والد کو بچانے کی کوشش کی، اس کے پیچھے پوتی اور پھر سالہ بھی انسانی ہمدردی کے تحت دریا میں کود گئے۔ واقعے میں صرف صادق کو زخمی حالت میں زندہ بچایا جا سکا جبکہ اس کی بیٹی، پوتی (11 سالہ لڑکی) اور سالہ سمیت تین افراد کی لاشیں دریا سے نکال لی گئی ہیں۔ریسکیو ٹیم نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے لاشوں کو برآمد کیا اور زخمی کو طبی امداد فراہم کی۔ واقعے نے علاقے میں افسوس کی لہر دوڑا دی ہے۔
یاد رہے ڈی سی غذر اپنے عملے کے ہمراہ موقع پر موجود تھے۔۔۔۔

01/08/2025

جنگلی جانور قدرت کی حسین ترین تخلیق ہیں۔ ان کی آزادانہ زندگی، فطری حرکات اور دلفریب خوبصورتی انسان کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ اکثر ہمارے دل میں یہ جذبہ ابھرتا ہے کہ ان بے زبان مخلوقات کو کچھ کھلا پلا کر اپنی محبت کا اظہار کریں، خاص طور پر سیاحتی مقامات پر یا جنگل کے کنارے آباد علاقوں میں۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ جنگلی جانوروں کو انسانی خوراک کھلانا، چاہے وہ بندر ہوں، ہرن ہوں، پرندے ہوں یا کوئی اور حیوان، درحقیقت ان پر ظلم کے مترادف ہے اور پورے ماحولیاتی نظام کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن سکتا ہے؟ آئیے، اس ظاہری "احسان" کے پیچھے چھپے ہولناک نقصانات کو سمجھتے ہیں۔
انسانی خوراک (چپس، بسکٹ، ڈبل روٹی، میٹھے مشروبات، تلی ہوئی اشیاء) جنگلی جانوروں کے قدرتی نظام ہضم کے لیے بالکل نامناسب ہوتی ہے۔ یہ ان میں موٹاپا، دانتوں کی خرابی، ہڈیوں کی کمزوری (خاص طور پر کیلشیم کی کمی سے)، ذیابیطس اور دیگر مہلک اندرونی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
کچھ انسانی غذائیں (جیسے چاکلیٹ، خاص قسم کے پھل، مصنوعی مٹھاس) جنگلی جانوروں کے لیے زہریلی ثابت ہو سکتی ہیں، جس سے ان کی اچانک موت واقع ہو سکتی ہے۔
جنگلی جانوروں کو مفت میں آسانی سے خوراک ملنے سے وہ اپنی فطری خوراک (جڑی بوٹیاں، پتے، پھل، کیڑے مکوڑے، چھوٹے جانور) تلاش کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے ان کے جسم کو وہ تمام ضروری غذائی اجزاء نہیں مل پاتے جو ان کی صحت اور نشوونما کے لیے لازمی ہیں۔
کھانا کھلانے سے جانور انسانوں پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے فطری شکار کرنے یا خوراک جمع کرنے کے ہنر بھول جاتے ہیں، جو کہ ان کی بقا کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ یہ ان کی آزاد اور خود مختار فطرت کے خلاف ہے۔
جب جانوروں کو کھانا کھلانے کی عادت پڑ جائے، تو وہ اس کے حصول کے لیے جارحانہ ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی دن انہیں کھانا نہ ملے (مثلاً جب سیاح کم ہوں)، تو وہ چھیننے، کاٹنے یا انسانوں پر حملہ کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ مری (پاکستان) یا کئی دوسرے سیاحتی مقامات پر بندروں کا مسافروں سے کھانا چھیننا یا انہیں نقصان پہنچانا اس کی واضح مثال ہے۔
جنگلی جانور قدرتی طور پر انسانوں سے دور رہتے اور ان سے ڈرتے ہیں۔ کھانا کھلانے سے یہ فطری خوف ختم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ انسانی آبادیوں میں گھسنے لگتے ہیں، جہاں انہیں گاڑیوں سے ٹکر جانے، زہریلے کیمیکلز کھا لینے یا دیگر خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔
جنگلی جانور کئی ایسی بیماریاں لے کر چلتے ہیں جو انسانوں میں منتقل ہو سکتی ہیں (Zoonotic Diseases)۔ ان کے قریب جانے، انہیں چھونے یا ان کی جگہوں پر گرے ہوئے کھانے کے ذریعے ریبیز (ہیضہ)، سالمونیلوسس، لیپٹوسپائروسیس، اور مختلف قسم کے پراسائٹس (پیراسٹ) انسانوں میں پھیل سکتے ہیں۔
جنگلی جانوروں کو کھانا کھلانا ظاہر میں محبت دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ ان کے لیے زہر قاتل اور ماحول کے لیے تباہی کا پیغام ہے۔ یہ ان کی آزادی سلب کرتا ہے، انہیں بیمار کرتا ہے، انہیں خطرناک بنا دیتا ہے اور قدرت کے نازک توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان خوبصورت مخلوقات کا احترام کریں، انہیں ان کے فطری ماحول میں آزادانہ رہنے دیں، اور ان کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے ایسے اقدامات کریں جو حقیقی معنوں میں ان کے لیے فائدہ مند ہوں۔ یاد رکھیں، اصل محبت دور سے تعریف کرنا اور ان کی حفاظت کے لیے کام کرنا ہے، نہ کہ ان کی فطرت کو تباہ کر کے انہیں اپنا محتاج بنا دینا۔ جنگلی حیات کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

Deosai Tourist Club

Address

DHA Karachi
Karachi
75500

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Gilgit Baltistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Gilgit Baltistan:

Share

Diwan Group of hotels in Chashma and chilum Choukey

Diwan groups of hotels own by Diwan brothers, the aim of these hotels to promote tourism and provide best services in low cost in hard areas.. these hotels are best in accommodation, food, and other facilities .

1; New Diwan brothers hotel and restaurant Chashma

2; Diwan Hotel and restaurant Chilum Choukey